افغانستان کے سینکڑوں باشندے جو اپنے ملک میں جنگ سے فرار ہوکر حالیہ برسوں میں یوکرین چلے گئے تھے،اب وہاں کی جنگ میں پھنس گئے ہیں اور بہت سے پناہ کی تلاش میں نکلنے کے لیے سر گرداں ہیں۔
رعنا علوت اور انکے شوہر اور بیٹے نے اوڈیسا چھوڑ دیا اور ملک سے فرار ہونے کے لیے ایک ٹرین میں سوار ہوگئے۔اس کے بعد ایک بس میں سفراور پولینڈ کی سرحد پر لمبی قطاروں میں انتظار کے بعد ،بالآ خر یہ خاندان پیر کے روزپولینڈ پہنچ گیا۔انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا تین سالہ بیٹا ،بم دھماکوں سے بہت خوفزدہ ہو گیا تھا۔
چھبیس سالہ رعنا نے چھ سال قبل یوکرین کے شہر اوڈیسا ہجرت کی تھی تاکہ اپنا مستقبل محفوظ اور بہتر بنا سکیں۔وہ اوڈیسا میں قائم افغان مہاجرین کے ایک سکول میں پڑھاتی تھیں ۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ بہت برا ہوا۔میں بڑے خواب لے کر یہاں آئی تھی اور خواہش تھی کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کروں گی،لیکن بدقسمتی نے پیچھا نہیں چھوڑا۔میں اپنے خاندان کے لیے خوفزدہ ہوں۔اب جلد ازجلد ہمیں دوبارہ آباد ہو جانا چاہیے۔
یوکرین میں ترک وطن کرنے والوں کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 2020 کے آخر میں ملک میں مستقل رہائش کی حیثیت سے مقیم افغان افراد کی تعداد تقریباً ایک ہزار چار سو انچاس تھی اور دو سو سے زیادہ عارضی ویزا کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔
لیکن افغان طالبان کے اگست میں کابل پر کنٹرول کے بعدثنا ا للہ تسمیم جیسے متعدد افغان افراد یوکرین آئے۔ اس بیس سالہ نوجوان نے ماسکو میں اپنی طبی تعلیم مکمل کرنے کے لیے چھ ماہ قبل افغانستان چھوڑا تھا۔ تاہم، افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کی وجہ سے اس کا سکالر شپ خراب ہوا اور وہ اپنی پڑھائی شروع کرنے سے قاصر تھا۔
وہ اپنی اعلیٰ تعلیم خود مکمل کرنے کے لیے کام کرنے اور پیسہ کمانے کے لیے یوکرین جانے پر مجبور ہوا۔ اس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ جنگ سے بچ گئے اور یہاں تعلیم حاصل کرنے اور بہتر مستقبل بنانے کے لیے آ ئے، لیکن پھر ایک اور جنگ میں پھنس گیا۔تسمیم نے بتایا کہ وہ پیر کے روز پولینڈ پہنچ گیا ہے۔
پولینڈ کے وزیر داخلہ ماریوز کامنسکی نے چوبیس فروری کو میڈیا کو بتایا کہ یوکرین کے ساتھ ملک کی پانچ سو پینتیس کلومیٹر سرحد کے ساتھ پناہ گزینوں کے لیے نو استقبالیہ مراکز قائم کیے جائیں گے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی کے مطابق اب تک پانچ لاکھ سے زائد افراد یوکرین سے فرار ہو چکے ہیں۔ ایجنسی کا اندازہ ہے کہ آنے والے ہفتوں میں یہ تعداد چالیس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
(یہ خبر وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس سے لی گئی ہے)