پاکستان کے سابق صدر اور سپریم کورٹ کے جج محمد رفیق تارڑ 92 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کرگئے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق صدر کے پوتے عطا اللہ تارڑ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں ان کے انتقال کی تصدیق کی ہے۔
سابق صدر کے انتقال پر صدر مملکت عارف علوی، وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان، قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سمیت دیگر حکومتی و سیاسی شخصیات نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
جج سے صدر تک کا سفر
سابق صدر رفیق احمد تارڑ یکم جنوری 1998 کو صدر مملکت منتخب ہوئے تھے۔ 1997 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے بعد اس وقت کے صدر فاروق احمد لغاری اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے انہیں منصبِ صدارت کے لیے نامزد کیا تھا۔ اس وقت رفیق تارڑ مسلم لیگ ن کے سینیٹر تھے۔
سیاسی کریئر کے آغاز سے قبل صدر رفیق تارڑ 17 جنوری 1991 سے نومبر 1994 تک سپریم کورٹ کے جج رہے۔ اس سے قبل مارچ 1989 تا اکتوبر 1991 تک وہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے۔
عدالتی ذمے داریوں سے سبکدوشی کے بعد انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔
صدر رفیق تارڑ کی سیاسی زندگی کے آغاز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کے ساتھ قریبی تعلق کی وجہ سے انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اپنی سیاسی زندگی کا سفر شروع کیا۔
اس بارے میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور صدر رفیق تارڑ کے پریس سیکریٹری رہنے والے کالم نگار عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ رفیق تارڑ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج رہے تھے اور کوئی گم نام شخصیت نہیں تھے۔ ان کی میاں شریف سے بھی شناسائی تھی۔
بعض مبصرین کے مطابق رفیق تارڑ جس وقت سپریم کورٹ جج تھے تو انہوں نے بے نظیر بھٹو کے دور میں جسٹس سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنانے کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ پر کتابوں کے مصنف حامد خان کے مطابق جب بے نظیر بھٹو کے دور میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج، جسٹس سعد سعود جان کے بجائے جونیئر جج جسٹس سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنایا گیا تو رفیق تارڑ نے اس کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے 1994 میں ریٹائرمنٹ کے بعد بیان بھی دیا تھا کہ جسٹس سعد سعود جان کی حق تلفی ہوئی اور انہیں ان کا حق ملنا چاہیے تھا۔
بعدازاں 1997 میں جب وزیرِ اعظم نواز شریف اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے درمیان فوجی عدالتوں کے قیام پر ایک تنازع ہوا۔ فوجی عدالتوں کا معاملہ عدالت میں زیرِ بحث تھا کہ وزیرِ اعظم نے چیف جسٹس سے متعلق سخت بیانات دیے جس کے بعد انہیں توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا۔
وزیر اعظم نواز شریف پر فردِ جرم عائد کردی گئی اور 28 نومبر کو اس کیس کا فیصلہ ہونا تھا لیکن مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے سپریم کورٹ کی عمارت پر دھاوا بولنے کی وجہ سے چیف جسٹس فیصلہ سنانے عدالت نہیں پہنچ سکے اور اسی دوران سپریم کورٹ کے کوئٹہ بینچ نے سنیارٹی کی خلاف ورزی کی بنیاد پر جسٹس سجاد علی شاہ کی تقرری کا نوٹس مسترد کردیا تھا۔ اس تنازع کے بعد سجاد علی شاہ کی جگہ جسٹس اجمل میاں کو چیف جسٹس بنایا گیا۔
تلاش ہورہی تھی کہ نامزد صدر کہاں ہیں؟
سینیٹر عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ صدر رفیق تارڑ سے ان کا دیرینہ تعلق تھا۔ جس وقت انہیں صدارت کے لیے نامزد کیا گیا وہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میں نے ان سے گلہ کیا تھا کہ آپ نے اس نامزدگی کی مجھے بھی خبر نہیں ہونے دی تو ان کا جواب تھا کہ یہ خبر ان کے لیے بھی اچانک تھی۔
وہ لاہور میں اپنی پینشن لینے بینک گئے ہوئے تھے کہ وہاں انہوں نے ایک جگہ بینر دیکھا کہ معروف عالمِ دین مولانا امین احسن اصلاحی کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ ان کے جنازے میں شرکت کے لیے چلے گئے۔ اس کے بعد وہ اپنی ہمشیرہ کے گھر روانہ ہوگئے جب کہ ادھر ان کی تلاش ہورہی تھی کہ نامزد صدر صاحب کہاں ہیں؟
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ صدر رفیق تارڑ کی نامزدگی میاں شریف کی تجویز پر ہوئی تھی۔ لیکن جب انہیں نواز شریف نے صدارت کے لیے نامزدگی کی اطلاع دی تو رفیق تارڑ نے اصرار کیا تھا کہ صدر کسی چھوٹے صوبے سے ہونا چاہیے۔
اس پر نواز شریف نے انہیں بتایا تھا کہ صوبوں سے مشاورت کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہے اور کوئی متفقہ نام سامنے نہ آنے کے بعد ہی انہیں نامزد کیا جارہا ہے۔
’ایوان صدر شکایات کی ایجنسی نہیں‘
سینیٹر عرفان صدیقی بتاتے ہیں منصب صدارت سنبھالنے کے بعد رفیق تارڑ نے انہیں پریس سیکریٹری کی ذمے داریاں سنبھالنے کی پیش کش کی تھی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔
اپنی ان ذمے داریوں کی وجہ سے انہیں کم و بیش ساڑھے تین برس تک صدر رفیق تارڑ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
وہ بتاتے ہیں کہ صدر رفیق تارڑ ایک بذلہ سنج شخصیت تھے۔ میری ان سے پہلے سے شناسائی تھی اور جب میں ان کا پریس سیکریٹری بنا تو میرے ساتھ ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ ہرشام مجھے بلا لیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ بے تکلف گفتگو ہوتی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ بظاہر صدر تارڑ سنجیدہ شخصیت کے مالک لگتے تھے لیکن نجی محفلوں میں ان کے ساتھ بیٹھنے والے جانتے ہیں کہ جب ان کے لطائف کی برکھا برستی تھی تو پھر برستی ہی جاتی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ اصول کے بڑے پکے آدمی تھے۔ کسی کے بارے میں ایک بار کوئی تاثر قائم ہوجاتا تھا تو پھر وہ آسانی سے تبدیل نہیں ہوتا تھا۔ جن لوگوں سے خفا ہوجاتے تھے تو محفلوں میں ان سے ہاتھ بھی نہیں ملاتے تھے۔
عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ ایک بار میں نے ان سے کہا کہ اس طرح ناراضی کا اظہار مناسب نہیں لگتا۔ جس پر ان کا جواب تھا کہ وہ اس بات کو منافقت سے تعبیر کرتے ہیں کہ جن لوگوں کو وہ اچھا نہیں سمجھتے وہ ان سے خوش اخلاقی سے ملیں۔
’درخواست ان کے نام تھی کسی جنرل کے نہیں!‘
بارہ اکتوبر 1999 کو جب اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے منتخب وزیرِ اعظم کا تختہ الٹا تو ایوان صدر میں گورنر سندھ ممنون حسین کے اعزاز میں عشائیے کی تقریب ہو رہی تھی۔
جب یہ اطلاع موصول ہوئی تو صدر کے اس وقت کے پریس سیکریٹری عرفان صدیقی اور ان کے ملٹری سیکریٹری بھی وہیں موجود تھے۔
عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ اس وقت تک رفیق تارڑ کا نواز شریف سے رابطہ ہوچکا تھا اور انہوں نے بتادیا کہ انہیں فوج نے گھیر رکھا ہے۔
اس کے بعد مشرف بھی ان سے رابطہ کرکے بتا چکے تھے کہ وہ شام کو اسلام آباد آ کر ان سے مشورہ کریں گے تب تک وہ اپنے منصب سے متعلق کوئی فیصلہ نہ کریں۔
اس کے بعد انہوں نے عرفان صدیقی کو بلا کر چیف جسٹس آف پاکستان سعید الزماں صدیقی کے نام ایک خط لکھوایا جس میں ان سے ملکی صورت حال کا نوٹس لینے کا کہا گیا تھا۔
وہ یہ خط پریس کو جاری کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس اثنا میں راجہ ظفر الحق کے ذریعے میاں شریف نے ان سے رابطہ کیا اور انہیں پیغام دیا کہ آپ کا منصب صدارت پر رہنا بہت ضروی ہے۔
عرفان صدیقی اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ صدر تارڑ کو صرف اس لیے منصب پر برقرار ہنے کا کہا گیا تھا کہ بعدازاں انہوں نے نواز شریف کی ملک سے روانگی کی راہ ہموار کرنا تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت تک یہ واضح ہی نہیں تھا کہ اقتدار پر قبضہ کرنے والے جنرل مشرف وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ نواز شریف نے جو درخواست ارسال کی تھی وہ ایک منتخب صدر کے نام تھی کسی جرنیل کے نام نہیں۔
سلیوٹ کا جواب نہیں دیا
جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان نہیں کیا تھا بلکہ وہ چیف ایگزیکٹو کا عہدہ اختیار کیا تھا اور اب ان کی نظریں ایوانِ صدر کی جانب تھیں۔
عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ مشرف کو اقتدار سنبھالے ڈیڑھ برس سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا تھا اور یہ چہ مگوئیاں گردش میں تھیں کہ اب وہ چیف ایگزیکٹو سے صدر بننے کے لیے پر تول رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ایک شام غالباً جنرل محمود اور پرویز مشرف کے معتمدِ خاص طارق عزیز یہ پیغام لے کر آئے کہ صدر صاحب آرمی چیف کا کہنا ہے کہ آپ نے بہت دنوں سے کھانا نہیں کھلایا۔ اس وقت تک تارڑ صاحب کو صورت حال کا اندازہ ہوچکا تھا۔
پرویز مشرف کو کھانے کی دعوت دی گئی جس میں ان کے ساتھ دیگر جنرلز بھی موجود تھے۔ عرفان صدیقی کے بقول اس ملاقات میں پرویز مشرف نے بڑی لچھے دار باتیں کیں اور کہا کہ ملک میں بے یقینی کی صورتِ حال ہے۔ سرمایہ کاری نہیں آرہی اور مجھے اب بھارت بھی دورے کے لیے جانا ہے تو میرے مشیر یہ تجویز کرتے ہیں کہ میں صدر بن جاؤں۔
اس پر رفیق تارڑ کا جواب تھا کہ پہلے بھی جو کچھ کیا آپ نے کیا ہے اس لیے اب بھی آپ جو کرنا چاہیں کرلیں۔
اس پر جنرل یوسف نے کہا کہ آپ استعفی بھی تو دے سکتے ہیں۔ جس کے جواب میں رفیق تارڑ نے کہا آئینی اعبتار سے میں صرف اسپیکر قومی اسمبلی کو استعفی دے سکتا ہوں اور اس وقت یہ منصب وجود ہی نہیں رکھتا۔ پرویز مشرف چیف ایگزیکٹو ہیں اور میرے ماتحت ہیں میں انہیں استعفی نہیں دوں گا۔
عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ اس ملاقات کے اگلے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے صدر رفیق تارڑ کو ان کے منصب سے علیحدہ کر دیا گیا۔ 20 جون 2001 کو جب یہ فیصلہ ہوا تو پرویز مشرف ان سے ملنے کے لیے ایوان صدر آئے۔
ملاقات کے بعد جب رفیق تارڑ روانہ ہونے کے لیے نیچے آئے تو ان کی گاڑی سے جھنڈا اتار دیا گیا تھا۔
مشرف انہیں رخصت کرنے کے لیے پورچ تک آئے اور جب ان کی گاڑی روانہ ہوئی تو فوجی انداز میں مشرف نے انہیں سلیوٹ بھی کیا لیکن رفیق تارڑ نے اس کا جواب نہیں دیا اور اپنی رہائش گاہ روانہ ہوگئے جہاں سے شام کو وہ لاہور آگئے۔
رفیق تارڑ درست کہتے تھے!
منصب سے علیحدگی کے بعد صدر رفیق تارڑ نے سیاست سے کنارہ کشی کر لی تھی لیکن وہ اصرار کرتے تھے کہ انہیں صدارت سے ہٹایا گیا ہے وہ ملک کے آئینی صدر ہیں۔
معروف قانون داں حامد خان کا کہنا ہے کہ صدر رفیق تارڑ کا یہ موقف درست تھا کیوں کہ جس حکم نامے سے انہیں صدارت سے ہٹایا گیا تھا اس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ظفر علی شاہ کیس میں جسٹس ارشاد حسن نے نظریہ ضرورت کے تحت پرویز مشرف کی حکومت کو آئینی جواز دینے کے لیے یہی بنیاد فراہم کی تھی کہ صدر کا آئینی عہدہ برقرار ہے۔ لیکن شرمناک طور پر جب اسی صدر کو ایک غیر آئینی حکم نامے کے ذریعے برطرف کیا گیا تو جسٹس ارشاد حسن پرویز مشرف سے حلف لینے پہنچ گئے۔
تاہم حامد خان کا کہنا ہے کہ صدر رفیق تارڑ نے ماحول ساز گار ہونے کے بعد ہی اپنے اس موقف کا اظہار کیا۔ انہیں جس وقت منصب سے ہٹایا گیا تھا تو کم از کم کسی سطح پر اس کی مزاحمت کرنی چاہیے تھی۔ کچھ نہیں تھا تو کم از کم سپریم کورٹ میں ایک دراخوست ہی دائر کرنی چاہیے تھی۔
’یہ کریم ہے مرہم نہیں‘
عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ ایوان صدر سے نکلنے کے بعد رفیق تارڑ نے گوشہ نشینی کی زندگی گزاری۔ وہ علیل بھی رہے اور کبھی اس بات کی شکایت بھی کرتے تھے کہ ان کی اس طرح پرسشِ احوال نہیں ہوتی جیسے ہونی چاہیے تھے۔
ان کے مطابق وہ ایوان صدر سے نکلے تو ان کا دامن صاف تھا۔ منصب سنبھالتے ہی صدر کو تزئین و آرائش کے لیے ایک خصوصی گرانٹ ملتی ہے جو انہوں نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا تھا کہ دفتر اور ہائش گاہ میں موجود اشیا اچھی حالت میں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ ان کے چہرے پر ایک پھنسی ہوگئی تھی اور ایوان صدر کے معالج بریگیڈیئر شجاعت نے ایک دوا انہیں لگانے کے لیے دی۔
اگلے روز جب وہ معائنے کے لیے آئے تو صدر کے ہاتھ میں وہ دوا تھی۔ جس پر ڈاکٹر نے کہا کہ آپ نے یہ دوا استعمال کیوں نہیں کی۔ رفیق تارڑ نے کہا کہ اس دوا پر کریم لکھا ہے یہ اس اعتبار سے کاسمیٹکس کے زمرے میں آتی ہے۔ قواعد کے اعتبار سے ہمیں کاسمیٹکس اشیا سرکاری خرچ پر لینے کی اجازت نہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں کوئی دوا استعمال کروں تو کوئی مرہم تجویز کردیجیے۔
سپریم بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان کا کہنا ہے کہ بطور جج رفیق تارڑ ایک اوسط جج تھے۔ ان کے کریڈٹ پر آئینی اعتبار سے کوئی بڑا فیصلہ نہیں لیکن مالی اعتبار سے وہ ایک کلین آدمی تھے۔
نواز شریف اور مشرف ان کی بات سنتے تھے
عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ رفیق تارڑ جس ایوان صدر میں آئے تھے وہ منتخب وزرائے اعظم کے خلاف سازشوں کا مرکز رہا تھا۔ لیکن رفیق تارڑ نے خود کو اپنے آئینی کردار کے سانچے میں ڈھالا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ایک بار نواب زادہ نصر اللہ خان نے صدر کو خط لکھا کہ وہ ان سے مل کر وزیر اعظم سے متعلق اپنی شکایات پہنچانا چاہتے ہیں۔
عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ اس پر صدر تارڑ نے انہیں طلب کیا اور اس خط کا جواب لکھوایا کہ یہ ایوان صدر وزیرِ اعظم کے خلاف شکایات وصول کرنی کی ایجنسی نہیں۔ آپ ملاقات کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں تو ضرور لائیے۔
انہوں نے بتایا کہ فرائض منصبی انجام دیتے ہوئے بھی انہوں نے صدارتی منصب کے تقاضوں کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ اگر کسی سمری میں کوئی آئینی و قانونی سقم ہوتا تھا تو وہ اس پر اعتراض لگا کر اسے واپس بھجوانے کے بجائے وزیر اعظم سے رابطہ کرکے انہیں بتادیا کرتے تھے کہ اس میں یہ درستی کرکے دوبارہ بھجوا دیا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ جج ہونے کی وجہ سے آئینی اور قانونی امور پر ٹھوس رائے دیتے تھے جسے میاں نواز شریف بہت اہمیت دیتے تھے پرویز مشرف کے سامنے بھی وہ اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے تھے اور کئی مواقع پر وہ ان کی بات تسلیم بھی کرتے تھے۔
عرفان صدیقی کے بقول رفیق تارڑ کی شخصیت کی وجہ سے انہوں نے نواز شریف اور پرویز مشرف دونوں کو ان کا احترام کرتے دیکھا۔
بے اختیار صدارت ؟
حامد خان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں صدارتی منصب کے بے اختیار ہونے کا جو تاثر پایا جاتا ہے وہ پوری طرح درست نہیں۔
ان کے مطابق پاکستان اور بھارت کے آئین کے مطابق اگرقومی اسمبلی میں کوئی جماعت حکومت سازی کے لیے درکار عددی قوت جمع نہ کرپائے تو صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صدر کا ایک اور اہم اختیار آئین کے مطابق کسی بھی قانون سازی کی توثیق صدر سے لینا ضروری ہے۔ آئین صدر کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی قانون سازی میں آئینی سقم ہونے کی صورت میں اس قانون کو واپس بھجوا سکتا ہے۔ اسے ویٹو کرسکتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں صدور اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ کبھی انہوں ںے یہ اختیار استعمال ہی نہیں کیا۔
حامد خان کا کہنا ہے کہ اپنا یہی اختیار استعمال نہ کرنے کی وجہ سے رفیق تاررڑ ہوں، ممنون حسین یا عارف علوی، صدارت کا منصب ہمیں بے اختیار لگتا ہے۔