بھارت کی وزارتِ داخلہ نے گزشتہ دنوں نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں 'ولیج ڈیفنس کمیٹیز' کی تجدید کا باضابطہ اعلان کردیا ہے۔کشمیر میں مرکزی حکومت کے اس فیصلے کا بھارتیہ جنتا پارٹی نے خیر مقدم کیا ہے جب کہ دیگر سیاسی جماعتوں نے اس پر کڑی تنقید کی ہے۔
ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کو دوبارہ فعال کرنے کےفیصلے کی حمایت کرنے والے اسے کشمیر میں حالات کو معمول پر رکھنے کی پیش بندی کے طور پر دیکھتے ہیں جب کہ ناقدین اس فیصلے کو قیامِ امن کے حکومتی دعوؤں کی نفی قرار دیتے ہیں۔
یہ کمیٹیاں 1990 کی دہائی میں اس وقت تشکیل دی گئی تھیں جب متنازع علاقے میں بھارت کی فورسز کے خلاف مزاحمت کی تحریک عروج پر تھی۔ اس دور میں عسکریت پسندوں نے سیکیورٹی فورسز پر حملے تیز کردیے تھے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے وقتا" فوقتا"اُن عام شہریوں کو بھی ہدف بنانا شروع کردیا تھا جنھیں وہ سیکیورٹی فورسز کا مدد گار سمجھتے تھے۔ ان کارروائیوں کی روک تھام کے لیے بھارتی حکومت نے ریاست کے صوبہ جموں میں خاص طور پر پیر پنجال اور چناب ویلی کے اُن علاقوں میں جہاں ہندو اقلیت میں ہیں، ولیج ڈیفنس کمیٹیز ( وی ڈی سیز) یا دیہات دفاعی کمیٹیاں قائم کی تھیں۔
یہ کمیٹیاں عام طور پر آٹھ سے 10 افراد پر مشتمل ہوتی تھیں اور انہیں حکومت نہ صرف ہلکے ہتھیار فراہم کرتی تھی بلکہ ان کے ساتھ دو اسپیشل پولیس افسروں کو بھی تعینات کیا جاتا تھا۔
یہ کمیٹیاں سیکیورٹی فورسز کی عدم موجودگی میں آبادی والے علاقوں میں عسکریت پسندوں کی آمد پر یا ان کی طرف سے شہریوں کے خلاف کسی اقدام کی صورت میں مزاحمت کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ ہ اپنے اپنے علاقے میں عسکریت پسندوں کے خؒلاف ہونے والے آپریشنز میں پولیس ، فوج اور دوسرے حفاظتی دستوں کی مدد کرنا بھی ان کی ذمے داریوں میں شامل تھا۔
دفاعی کمیٹیوں پر تنقید کیوں ہوئی؟
اپنے قیام کے کچھ ہی عرصے کے بعد یہ کمیٹیاں سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کے لیےکام کرنے والی تنظیموں کی شدید نکتہ چینی کی زد میں آگئیں۔ ان کے بارے میں یہ شکایات آنے لگیں کہ یہ مبینہ طور پر سیاسی نظریات اور مذہبی تعصب کی بنیاد پر نہتے شہریوں کو ہراساں کرر ہی ہیں۔
کئی ایسے واقعات بھی پیش آئے جب ان کمیٹیوں کے اراکین نےذاتی رنجشوں کی بنا پر اور خاندانی قضیوں کو نمٹانے کے لیے بھی اختیارات اور اسلحے کامبینہ ناجائز استعمال کیا۔ چناںچہ یہ کمیٹیاں بہت جلد غیر مقبول ہوگئیں اور پھر امن و امان کی صورتِ حال میں بہتری آنے اور سیکیورٹی فورسز کی طرف سے جموں کے علاقے میں عسکریت پسندی پر قابو پانے کے ساتھ ہی ان کی اہمیت و افادیت کم ہوتی گئی اور یہ کمیٹیاں عملاً غیر فعال ہو کر رہ گئیں۔
اب بھارتی وزارتِ داخلہ نے ان کمیٹیوں کی تجدید کا اعلان کرتے ہوئے انہیں وِلیج ڈیفنس گروپس (وی ڈی جیز) کا نام دیا ہے۔
وزارتِ داخلہ کے ایک عہدے دار نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے چیف سیکریٹری ڈاکٹر اشوک مہتا کو ایک مراسلے میں بتایا ہے کہ وزارت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ان کمیٹیوں کو ' وی ڈی جیز ' اور ان کے ارکان کو 'وِلیج ڈیفنس گارڈز ' کہا جائے گا۔
بھارتی وزارتِ داخلہ کے مراسلے کے مطابق حساس ترین علاقوں میں قائم کی جانے والی وی ڈی جیز کے منتظم یا سربرا ہ کو ماہانہ ساڑھے چار ہزارروپے اور اور ہر رکن کو چار ہزار روپے مشاہرے کے طور پر دیے جائیں گے۔
وی ڈی جیزمتعلقہ ضلعے کےسپر نٹنڈنٹ (ایس پی) یا سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس(ایس ایس پی) کی نگرانی میں کام کریں گی۔ تاہم اس نظر ثانی شدہ اسکیم پر عمل درآمد جموں ، کشمیر و لداخ ہائی کورٹ کو مطلع کرنے کے بعد کیا جائے گا۔اگر کسی کمیٹی میں نئے اراکین کے تقرر کی ضرورت پیش آئے گی تو اس سلسلے میں بھی فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔
حکومت کا فیصلہ وقت کاتقاضا ہے: بی جے پی
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کو دوبارہ فعال کرنے کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ جموں و کشمیر میں پارٹی کے صدر رویندر رینہ نے کہا ہے کہ یہ ایک اچھا اور دور رس اہمیت کا حامل فیصلہ ہے۔ وی ڈی جیز کی اہمیت و افادیت ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ ان کی آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی پہلے تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ اخلہ امیت شاہ کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے وی ڈی سیز کو نیا نام اور نئی شکل دینے کے ساتھ ساتھ اس کے اراکین کے مشاہرے میں اضافہ کرنے کے لیے کہا ہے۔ یہ وی ڈی سی اراکین کا ایک دیرینہ جائزمطالبہ تھا اور عام لوگ بھی یہی چاہتے تھے۔
حکومت کے حالیہ اعلان سے قبل ے وی ڈی سی رکن کو صرف 1100 روپے ماہانہ اجرت ملتی تھی۔
پرانی وِلیج ڈیفنس کمیٹیوں کے اراکین کے ایک وفد نے حال ہی میں بی جے پی رہنماؤں کے ساتھ وزیرِ داخلہ سے نئی دہلی میں ملاقات کی تھی جس میں حکمران جماعت کے ان لیڈروں نے ان ارکان کے مطالبات کی بھر پور وکالت کی تھی۔ اس ملاقات کے فوراً بعد وزارتِ داخلہ نے وِلیج ڈیفنس کمیٹیاں دوبارہ فعال کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
اس فیصلے کے ناقدین کے مطابق بی جے پی جموں کے ان علاقوں میں نہ صرف اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنا چاہتی ہے بلکہ ان کمیٹیوں کے ذریعے شہریوں میں اپنے سیاسی مخالفین پر دباؤ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔البتہ بی جے پی اس الزام کی سختی کے ساتھ تردید کرتی ہے۔
ولیج کمیٹیاں مسئلہ یا حل؟
سرکردہ صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار ارون جوشی کا کہنا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سیکیورٹی کی صور تِ حال میں نمایاں بہتری آئی ہے اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ وِلیج ڈیفنس کمیٹیوں کی تجدید کا مقصد اس تبدیلی کو برقرار رکھنے میں حکومت اور سیکیورٹی فورسز کی مدد حاصل کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اگر ان علاقوں میں جہاں یہ کمیٹیاں فعال کی جارہی ہیں عسکریت پسند ایک بار پھر سر اٹھاتے ہیں تو اس کے مقابلے کے لیے انہیں استعمال کیا جائے گا۔
ارون جوشی کے مطابق جہاں تک عسکریت کا تعلق ہے تو وادیٔ کشمیر ہو یا جموں کا خطہ، اس کی صورت واضح نہیں ہے لیکن مستقبل میں حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ کہنا مشکل ہے۔
جموں و کشمیر میں بھارت کی مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے وی ڈی سیز کو دوبارہ منظم کرنے کے فیصلے پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ ان کے بقول حکومت کا دعویٰ ہے کہ جموں و کشمیر میں تشدد میں نمایاں کمی آئی ہے اور حالات معمول پر آرہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں وی ڈی سیز کی تجدید غیر ضروری اقدام ہے۔
انہوں نے کہا کہ وی ڈی سیز کے متعدد اراکین کے خلاف ان کی مبینہ بے ضابطگیوں کے درجنوں مقدمات مختلف پولیس تھانوں میں درج ہیں۔ ان کے بقول: "کیا حکومت اس سیاہ باب کا احیاء چاہتی ہے؟۔"
'حکومت کے دعوؤں کی نفی'
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ وی ڈی سیز کو دوبارہ منظم کرنا بھارتی حکومت کے ان اقدامات کی تازہ کڑی ہے جو اس کے اس دعوے کو کھوکھلا ثابت کرتے ہیں کہ ریاست میں حالات معمول پر آگئے ہیں۔ان کے بقول:’حکومت کا تازہ اقدام سماج کے مختلف طبقوں میں خلیج پیدا کرنے کا سبب بن جائے گا۔'
نیشنل کانفرنس، پیپلز کانفرنس، جموں و کشمیر اپنی پارٹی اور کئی دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی وی ڈی سیز کو دوبارہ فعال کرنے پر تنقید کی ہے۔
نیشنل کانفرنس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وی ڈی سیز کو دوبارہ فعال کرنا 1990 کی دہائی کی پریشان کن ، ڈراؤنی اور ہول ناک صورتِ حال کی یاد تازہ کرتا ہے اور اس فیصلے سے حکومت کےاس دعوے کی نفی ہوتی ہے کہ حالات معمول پر آگئے ہیں۔
پارٹی کے ترجمان عمران نبی ڈار نے کا کہنا ہے کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب حکومت یہ کہہ رہی تھی کہ جموں و کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ حکومت نے حال ہی میں یہ اعلان بھی کیا تھا کہ چناب وادی میں عسکریت کا قلع قمع کردیا گیا ہے۔ ان حالات میں وی ڈی سیز کو دوبارہ فعال کیوں بنایا جارہا ہے؟ یہ اقدام حکومت کے اس دعوے کے آگے سوالیہ نشان کھڑا کردیتا ہے کہ حالات معمول پر آگیے ہیں۔
عمران ڈار نے مزید کہا کہ ان کمیٹیوں کے خلاف جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ پولیس نے وی ڈی سیز کے سابق ممبران کے خلاف مبینہ طور پر تقریبا" دو سو مقدمے درج کر رکھے ہیں۔
انہوں ںے الزام عائد کیا کہ دیہات کے دفاع کے لیے بنائی گئی ان کمیٹیوں کا کردار ماضی میں انسانی حقوق کی پامالی اور سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے داغ دار رہا ہے۔ اس لیے حکومت کا وی ڈی سیز کو دوبارہ منظم کرنے کا اقدام جموں کے پہاڑی علاقوں میں امن قائم کرنے کے بجائے الٹا نقصان دہ ثابت ہوگا۔
'عسکریت کمزور پڑگئی ختم نہیں ہوئی ہے'
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے کا کہنا ہے کہ یہ امر خوش آئند ہے اور باعثِ اطمینان ہے کہ جموں و کشمیر میں سیکیورٹی کی مجموعی صورتِ حال بہترہوئی ہے۔ لیکن عسکریت اب بھی ہمارے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کیوں کہ ان کے بقول عسکریت پسندی میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن یہ ختم نہیں ہوئی۔
وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ جن خطوں میں امن قائم ہوا ہے وہاں پاکستان عسسکریت اور تشدد کو دوبارہ ہوا دینے کی کوشش کررہا ہے۔ ان کے مطابق پولیس اور سیکیورٹی فورسز ان کوششوں کو ناکام بناتے آئے ہیں اور آئندہ بھی ایسا کرتے رہیں گے۔ وی ڈی سیز کی تجدید اسی سعی کی ایک کڑی ہے۔ تاہم پاکستان ایل او سی کے پار تشدد میں اضافے کا سبب بننے کے بھارتی دعوووں کی تردید کرتا ہے۔
28 ہزار رضا کار سیکیورٹی فورسز کا ہاتھ بٹانے کے لیے تیار
جموں کے ایک اخبار 'دی ایکسلشئر' کے مطابق وی ڈی سیز کے سابق ممبران کی ایک بڑی تعداد اگرچہ نامساعدحالات اور حکومت کی سر دمہری کی وجہ سے دل برداشتہ ہوکر ان سے الگ ہوچکی ہے۔ البتہ پیر پنجال اور چناب وادی میں اب بھی تقریبا"28 ہزار کے قریب ایسے رضاکار موجود ہیں جو ان کمیٹیوں میں شامل ہوکر حکومت اور سیکیورٹی فورسز کی کے'قیامِ امن' کے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں ان کا ہاتھ بٹانا چاہتے ہیں۔اس سے انہیں درپیش روز گارکا مسئلہ بھی حل ہوجائےگا۔
واضح رہے کہ حکومتی سطح پر ان دفاعی کمیٹیوں کے رضاکاروں کی تعداد سے متعلق اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔