اپوزیشن جماعتیں عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے پر متفق ہو سکیں گی؟
پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں حکومت مخالف لانگ مارچ کے اعلان کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے پر غور کر رہی ہیں۔
تحریکِ عدم اعتماد یا ان ہاؤس تبدیلی کو لے کر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان اختلافات کم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے حالیہ ملاقاتیں اسی سلسلے کی کڑی سمجھی جا رہی ہیں۔
ماضی میں منقسم رہنے والی حزبِ اختلاف اب ایک بار پھر مشترکہ حکمتِ عملی کی طرف بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ حزبِ اختلاف رہنماؤں کی ملاقاتوں کا بنیادی نکتہ تحریکِ عدم اعتماد بتایا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کہتے ہیں کہ ایوان کے اندر تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے اور یہی حزبِ اختلاف کے پاس بہترین جمہوری راستہ ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال بھی سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے خاتمے کے لیے حزبِ اختلاف کو مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہو گی۔
مبصرین کا بھی ماننا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے بڑھتے ہوئے رابطے اور کم ہوتے فاصلے حکومت کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔
پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی میں حکمران جماعت تحریکِ انصاف کو اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ قلیل اکثریت حاصل ہے۔
عمران خان کی 'جارحانہ' تقریر: مخاطب اپوزیشن تھی یا اسٹیبلشمنٹ؟
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے اور اقتدار سے ہٹنے کی صورت میں سڑکوں پر احتجاج کرنے کے بیانات پر تجزیوں اور تبصروں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
اتوار کو ٹی وی پر نشر ہونے والے براہ راست سیشن ' آپ کا وزیرِ اعظم آپ کے ساتھ' میں' ایک شہری کے سوال پر جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اگر وہ اقتدار سے الگ ہوئے تو اپوزیشن جماعتوں کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے اور اُنہیں کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اُن کے لیے اصل پریشانی ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے جس کی وجہ سے وہ رات کو سو بھی نہیں پاتے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کو للکارا ہے لیکن ساتھ ہی اُنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی پیغام دیا ہے کہ اگر اُنہیں اقتدار سے ہٹایا گیا تو و ہ خاموشی سے گھر نہیں جائیں گے۔
بعض تجزیہ کار عمران خان کی تقریر کو اُن کی حکومت کی ناکامی کے اعتراف کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کو ایسے بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ "سرگوشیوں پر مبنی خبروں پر وزیرِاعظم کو بات نہیں کرنی چاہیے، ایسی باتوں سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ لیکن شاید وہ اُن لوگوں کو وارننگ دینا چاہتے ہیں جو انہیں نکالنا چاہتے ہیں لیکن میرے خیال میں اس بیان کا کوئی اچھا اثر نہیں پڑا۔"
کیا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے قائدین کی ملاقات تحریکِ عدم اعتماد کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے؟
پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف اور مریم نواز سے ملاقات کی۔ ملاقات میں حکومت مخالف حکمتِ عملی بنانے پر اتفاق ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین کی ملاقات میں دونوں جماعتوں کے دیگر رہنما بھی شامل تھے۔ ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ اگر آج حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں اکٹھی نہ ہوئیں تو قوم معاف نہیں کرے گی۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ اُنہوں نے اتفاق کیا ہے کہ پاکستان کو اِس حکومت کے خلاف اکٹھا ہونا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اِس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو تمام قانونی، آئینی اور سیاسی حربوں کو استعمال کرنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کا اِس بارے میں واضح مؤقف ہے البتہ مسلم لیگ (ن) میں دو رائے پائی جاتی تھی البتہ نواز شریف بہت حد تک یکسو ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ اُنہوں نے طے کیا ہے کہ آئندہ چند دِن میں مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) میں اِس سلسلے پر مشاورت کی جائے گی اور یہی بات پی ڈی ایم میں بھی لے کر جائیں گے جس کے بعد مشاورت سے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب اچھا وقت آئے گا تو سب اپنی اپنی سیاست کریں گے البتہ موجودہ صورتِ حال میں حزبِ اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک نکتے پر آنا ہو گا۔
عبوری حکومت یا نئے انتخابات؛ آخر اپوزیشن جماعتیں چاہتی کیا ہیں؟
پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں ایک بار پھر حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے سرگرم ہیں۔ ایک جانب سابق صدر آصف علی زرداری نے لاہور میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں تو وہیں لندن میں مقیم سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے عمران خان حکومت کی جلد سے جلد رُخصتی کے لیے تمام آئینی راستے اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے پیر کو حکومت کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی تھی جب کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے بھی تمام آپشنز کھلے رکھنے کا عندیہ دے رکھا ہے اور اس کے مرکزی رہنماؤں نے منگل کو مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کی ہے۔
اس سے قبل سابق صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ہفتے کو مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے ملاقات کر کے حکومت کے خلاف ایک بار پھر مل کر چلنے پر اتفاق کیا تھا۔
مبصرین موجودہ سیاسی حالات میں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں اور اپوزیشن پارٹیوں کی ان ملاقاتوں کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ ساڑھے تین برس پر نظر دوڑائی جائے تو حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم کے علاوہ کئی قومی معاملات پر اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اعتماد کا فقدان نظر آیا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اپوزیشن جماعتیں چاہتی کیا ہیں؟ کیا وہ تحریکِ عدم اعتماد لا کر عبوری حکومت قائم کرنا چاہتی ہیں؟ یا نئے انتخابات اپوزیشن جماعتوں کی خواہش ہے؟ سیاسی افق پر اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ اہم قومی معاملات پر اپوزیشن کے بڑے کھلاڑی نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کہاں کھڑے ہیں؟