امریکی صدر جوبائیڈن نے یوکرین کے لیے 80 کروڑ ڈالر مالیت کے نئے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے ، جس کے بعد امریکہ کی جانب سے ایک ہی ہفتے میں یوکرین کو دی جانے والی امداد کی کل رقم بڑھ کر ایک ارب ڈالر ہوگئی ہے۔ بقول ان کے، ''یوکرین کے لیے بہت کچھ کیا جا رہا ہے''۔
انھوں نے کہا کہ اس سے قبل، یوکرین کو دفاعی اور ضروری استعمال کی اشیا کی صورت میں 65 کروڑ، 35 کروڑ اور 20 کروڑ ڈالر کی امداد دی جاچکی ہے۔یوں اب تک یوکرین کے لیے اعلان کردہ امریکی امداد کی کل مالیت دو ارب ڈالر ہو چکی ہے۔
بدھ کو وائٹ ہاؤس سے خطاب کرتے ہوئے، بائیڈن نے کہا کہ اس امداد میں سیکیورٹی اور دفاع سے متعلق آلات اور ہتھیار، جن میں طیارہ شکن نظام اورطویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بھی شامل ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کے علاوہ یورپ کے اتحادی متحد ہو کر یوکرین کی ہر ممکن مد د کررہے ہیں۔
بائیڈن نے کہا کہ یوکرین کی مدد اس لیے کی جا رہی ہےکیونکہ وہ اپنی آزادی اور جمہوریت کی سربلندی کے لیے لڑ رہا ہے،'' جو دراصل اُن کی اور ہماری قابل قدر مشترکہ میراث ہے''۔
انھوں نے یاد دلایا کہ گزشتہ سال مارچ میں روس کے جارحانہ عزائم واضح ہوگئے تھے، اور روس کے حملے سے بہت پہلے امریکہ نے یوکرین کو 65 کروڑ ڈالر کی مدد فراہم کی تھی، اور اس کے دفاعی نظام کو بہتر بنانے میں مدد کی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ جارحیت کے بعد سے اب تک روسی افواج کو بہت زیادہ جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
روس کے خلاف معاشی پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ نافذ کردہ مالی پابندیوں کے نتیجے میں روسی معیشت پر کاری ضرب لگ چکی ہے، اور یہ کہ ''روسی معیشت کو مزید کمزور کیا جائے گا، اور اس وقت یہی ہمارا ہدف ہے''۔
روسی افواج کی جانب سے یوکرینی شہری آبادی پر جاری حملوں کا ذکر کرتے ہوئے، امریکی صدر نے کہا کہ یوکرین کے مختلف شہروں کے اسپتالوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا، جو انسانی حقوق کی پامالی اور ظلم و ستم کی داستان ہے۔
امریکی صدر نے خبردار کیا کہ" یہ ایک لمبی لڑائی ہو سکتی ہے" اور اس عزم کا اظہار کیا کہ روس کی جانب سے یوکرین کے شہریوں پر"غیر اخلاقی" حملوں کے مقابلے میں امریکی عوام یوکرینیوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
امریکی صدر 24 مارچ کو برسلز میں منعقد ہونے والے نیٹو کے سربراہ اجلاس میں شرکت کریں گے، اس وقت یوکرین پر روسی جارحیت کو ایک ماہ ہو چکا ہوگا،۔ جب کہ اس سے قبل روس کئی ماہ تک یہ کہتا رہا تھا کہ اس کا یوکرین پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔