یوکرین پر روس کے حملے کو تین ہفتے ہو چکے ہیں لیکن روسی افواج شدید مزاحمت کے باعث وہ ممکنہ نتائج حاصل نہیں کرپائیں جس کی انہیں توقع تھی۔
اس وقت روس کی افواج خرکیف، خرسن، چرنوبل کو اپنے قبضے میں لے چکی ہیں جب کہ دارالحکومت کیف کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔اس کے علاوہ کرائمیا سے شہر اوڈیسہ کی طرف روسی افواج کی پیش قدمی جاری ہے۔
اوڈیسہ میں موسم گرم ہونا شروع ہو گیا ہے اور یہاں کے عوام اور فوج روسی افواج سے لڑنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
ساحلی شہر اوڈیسہ کا شمار ملک کی اہم بندگاہوں میں ہوتا ہے۔ یہ شہر خوب صورت ساحلوں، سمندری خوراک، اوپرا، بیلے تھیٹر اور فن تعمیر کے باعث مشہور ہے۔ یہاں کی زمین زرخیز ہے اور بڑی تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
اوڈیسہ میں دوسری جنگِ عظیم کے دور کی خندقیں موجود ہیں اور یہ علاقہ گوریلا جنگ کے لیے بہت سازگار ہے۔ یہاں فوج مختلف علاقوں میں مورچہ زن ہے۔
اسی شہر میں ایک پاکستانی افتخار احمد خٹک بھی مقیم ہیں جو یہ شہر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے بقول اوڈیسہ کا کنٹرول حاصل کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ کیوں کہ عالمی برادری کی جانب سے یوکرین کو روسی جارحیت سے قبل وسیع بنیادوں پر اسلحہ فراہم کیا گیا ہے ۔ اس لیے وہ خاصے پرامید ہیں کہ ان کے علاقے کی حفاظت کا مناسب بندوبست موجود ہے۔
افتخار خٹک قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پہلی بار 1985 میں سوویت یونین آئے تھے۔انہوں نے 1986 میں اوڈیسہ کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1993 میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکالت شروع کی۔ افتخار خٹک اب اوڈیسہ میں ایک فارنزک ایکسپرٹ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
افتخار خٹک نےوائس آف امریکہ کو بتایا کہ 24 فروری کو ماسکو کی جانب سے جب راکٹ برسائے گئے تو دھماکوں کی گونج سے ان کی آنکھ کھلی جس کے بعد انہوں نے موبائل فون دیکھا تو اس پر کئی دوستوں کے پیغامات موجود تھے۔
ان کے بقول ملک کے دیگر حصوں کی طرح اوڈیسہ کی فوجی تنصیبات روسی ساختہ راکٹوں کا نشانہ بنیں۔
افتخار احمد خٹک کے مطابق روس کے حملے سے قبل اگر کسی یوکرینی باشندے میں روس کےلیے نرم گوشہ تھا تو وہ اب ختم ہو چکا ہے اور اس حملے کے بعد مقامی افراد کی حب الوطنی دیدنی ہے۔
یوکرین کے دیگر شہروں کی طرح اوڈیسہ میں بھی ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔ شہر کی گہما گہمی مکمل خاموشی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ لوگوں کے چہرے مرجھائے سے لگتے ہیں۔ کاروباری مراکز، ریستوران اور تعمیراتی کام بند ہیں۔ سرکاری دفاتر، اسکولز اور یونیورسٹیاں بھی مکمل طور پر بند ہیں۔ صرف میڈیکل اسٹور اور کریانہ کی دکانیں کھلی ہیں۔
افتخارخٹک بتاتے ہیں حکومت کی جانب سے شہریوں کی سہولت کے پیشِ نظرٹیلی گرام ایپ کے ذریعے، سائرن کے ذریعے انہیں ممکنہ خطرے کے بارے میں پیشگی اطلاع دی جاتی ہے۔ جس کے بعد ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی عمارت کے نیچے ایک تہہ خانے میں چند منٹ کے اندر چلا جائے۔
ان کے بقول سائرن کی آواز سن کر وہ سب سے پہلے دروازے کے ساتھ رکھے اس تھیلے کی جانب لپک پڑتے ہیں جس میں کھانے پینے کی ضروری اشیا، دوائیاں اور کچھ ضروری دستاویزات ہوتی ہیں تاکہ کسی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں انہیں سفری دشواری نہ ہو۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس قسم کے تہہ خانے سوویت یونین کے وقت سے قائم ہیں جس کے دروازے اور دیواریں بہت مضبوط ہیں اور راکٹ اور بم پروف ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں ایک وقت میں لگ بھگ پچاس افراد پناہ لے سکتے ہیں۔
افتخار خٹک کا کہنا تھا کہ اوڈیسہ میں شام کے بعد کرفیو نافذ ہو جاتا ہے جو صبح تک جاری رہتا ہے لیکن ان کے علاقے میں اب تک بجلی معطل نہیں ہوئی۔ البتہ شہر میں ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ پیٹرول اور خوراک کی اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹرام جو کبھی لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوتی تھی اب لگ بھگ خالی رہتی ہیں۔
یاد رہے کہ یوکرین دنیا کے کئی ملکوں کو وافر مقدار میں گندم اور مکئی سپلائی کرتا ہے اور ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر یہ جنگ طول پکڑتی ہے تو دنیا میں خوراک کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔
حال ہی میں عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے ایک انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ روسی حملے کے باعث خوراک کے مواد کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔کیوں کہ روس اور یوکرین کا شمار عالمی سطح پر گندم اور سورج مکھی کے سب سے بڑے برآمدی ممالک میں ہوتا ہے۔