رسائی کے لنکس

وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے اسمبلی اجلاس معمہ بن گیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخابات کے لیے اسمبلی اجلاس معمہ بن گیا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے اسمبلی کا اجلاس بدھ کی شام سات بجے طلب کر لیا ہے تاہم اسمبلی کی ویب سائٹ پر اجلاس کی تاریخ 16 اپریل درج ہے۔

پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے بدھ کی شام طلب کیے جانے والے اجلاس کا مراسلہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب جاری کیا گیا جس پر دوست محمد مزاری کے دستخط موجود ہیں۔

اس سے قبل پانچ اپریل کو جاری ہونے والے مراسلے میں بتایا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل کو ہو گا۔

اطلاعات کے مطابق پانچ اپریل کو ہونے والا اجلاس جب 16 اپریل تک ملتوی کیا گیا تو اِس سے کچھ دیر قبل وزیراعظم عمران خان اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔

وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں پرویز الٰہی کے پرسنل اسٹاف افسر سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل کو ہو گا۔ جس کے بارے میں نوٹی فکیشن جاری کیا جا چکا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ چھ اپریل کی شام طلب کیے جانے والے اجلاس کے نوٹی فکیشن میں مراسلہ نمبر درج نہیں ہے۔

پنجاب اسمبلی کی سرکاری وی سائٹ پر بھی تا حال اجلاس کی تاریخ 16 اپریل ہی درج ہے۔

​دوسری جانب ڈپٹٰی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے قریبی ذرائع کے مطابق اسمبلی کا اجلاس چھ اپریل کو ہی طلب کیا گیا ہے اور اس اجلاس میں صوبے کے نئے قائدِ ایوان کا انتخاب بھی ہو گا۔

اس سے قبل وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے تین اپریل کو ہونے والا پنجاب اسمبلی کا ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا۔

پنجاب اسمبلی میں صحافیوں اور حزبِ اختلاف کے ارکان کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اسمبلی کے مرکزی دروازے پر موجود اسٹاف کے مطابق اُنہیں زبانی احکامات دیے گئے ہیں کہ اسمبلی کی حدود میں کسی صحافی اور حزبِ اختلاف کے رکن کو داخل نہ ہونے دیا جائے۔

یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی میں نئے قائدِ ایوان کے لیے پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز کے درمیان مقابلہ ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کو پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے امیدواروں کی حمایت حاصل ہے جب کہ حمزہ شہباز پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان اور آزاد امیدواروں کے متفقہ امیدوار ہیں۔

مسلم لیگ (ق)نے دعویٰ کیا ہے کہ اُنہیں ایوان میں 188 ارکان کی حمایت حاصل ہےجب کہ اپوزیشن ارکان اسمبلی میں 200ارکان کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG