25 مارچ کو روسی وزارتِ خارجہ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے حقائق کے بارے میں اپنی تفصیل پیش کرنے کی کوشش کی اور ایک ٹویٹ کے ذریعے یو کرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی اور ان کے مشیر اینتان ہیراشنکو کے بیانات کی "اصل حقیقت" بیان کر نے کا دعویٰ کیا۔
اس ٹویٹ کے مطابق یو کرین کی ان دونوں شخصیات نے روس پر الزام لگایا ہے کہ روسی فوج نے شہری اہداف پر سفید فاسفورس کے گولے پھینکے ہیں۔
سفید فاسفورس جلد سے ہڈی تک کوجلا کر رکھ دیتا ہے اور ہلاک بھی کر سکتا ہے۔
آتشیں ہتھیاروں میں فاسفورس کے وہ گولے بھی شامل ہیں جوحملے سے پہلے دھواں پھیلانے، ہدف کی نشاندہی کرنےاور نشانے کو نمایاں کرنے کے لیے پھینکے جاتے ہیں۔
آگ کی طرح جلتے سفید فاسفورس کے یہ گولے رات کے اندھیرے میں ہدف کو تو روشن کرتے ہی ہیں ساتھ ہی فوجیوں اور عام شہریوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
ہیراشنکو کے جو الفاظ بیان کیے گئے ہیں ان کے مطابق،" قبضہ کرنے والوں نے فاسفورس کے بم استعمال کیے جن پر جینیوا کنونشن کے تحت پابندی ہے۔" ساتھ ہی، انہوں نے ایک تصویر دی جس میں پوپسنیا، یوکرین میں فاسفورس کو فضا میں روشن ہوتے دکھایا گیا ہے۔
اس کے جواب میں روسی وزارتِ خارجہ نے ٹویٹ میں کہا،" روس مخالف جھوٹی خبروں کی اس فیکٹری کی رفتار دھیمی نہیں پڑی۔ خواہ مضحکہ خیز ہوں یا بے بنیاد تمام جھوٹ یہ مین سٹریم میڈیا اٹھا لیتا ہے اور اس میں تازہ ترین بے ضرر فوجی شعلوں کو فاسفورس بم بتاتا ہے۔"
اس ٹویٹ کے ساتھ ایک ویڈیو بھی لگائی گئی ہے جس میں یہ دکھانا مقصود تھا کہ دیگر تنازعوں میں داغے گئے فاسفورس کے گولے پوپسنیا کی فضا میں نظر آنے والے روشن اجسام سے مختلف تھے جو ایک تصویر میں دکھائے گئے ہیں۔
حقائق کی چھان بین سے متعلق وائس آف امریکہ کی ویب سائٹ polygraph.info کا کہنا ہے کہ روسی وزارتِ خارجہ کا ٹویٹ گمراہ کن ہے۔
ویب سائٹ کے مطابق روسی وزارت نے اس دعوے کے لیے کہ پوپسنیا میں سفید فاسفورس استعمال نہیں کیا گیا تھا،جو ویڈیوز استعمال کی ہیں وہ اس میں زیادہ مدد فراہم نہیں کرتیں۔ ایک تو یہ کہ ان پر جو دن اور تاریخ ہے وہ ان دیگر تنازعوں کی فوٹیج سے مختلف ہے جن میں فاسفورس کے گولوں کا استعمال دکھایا گیا ہے۔
ویب سائٹ کا مزید کہنا ہے کہ روس نے اپنے دعوے میں جس چمک کو بے ضرر فوجی روشنیاں'' بیان کیا ہے جو پیراشوٹ سے کودنے والوں کو ہوا میں زیادہ دیر تک رکھنے کی غرض سے استعمال کی جاتی ہیں، وہ تصویر میں پوپسنیا کے آسمان پر نظر آنے والی چمک سے میل نہیں کھاتیں۔
بلکہ پوپسنیا کی فضا میں نظر آنے والی روشنی کی لہروں کو بغور دیکھا جائے تو وہ روسی ساخت کے بی ایم۔21 گریڈ کثیر الجہتی راکٹ لانچر سے داغے گئے 9ایم22 ایس آتش گیر گولے سے مشابہت رکھتی ہیں۔
ویب سائٹ پولی گراف ڈاٹ انفو،poligraph.info کے مطابق اس سپیشل راکٹ کو آتش بازی کے مواد سے بھر دیا جاتا ہے یہ ان آتش گیر بموں سے مماثلت رکھتا ہے جو دوسری عالمی جنگ کے دوران استعمال کیے گئے ۔
'آرمامنٹ ریسرچ سروسز' یا اے آر ای ایس نامی ادارہ جو اسلحہ کی سمگلنگ اور عالمی تنازعوں میں اس کے استعمال پر نظر رکھتا ہے اس کا کہنا ہے کہ ایک 9ایم22ایس راکٹ میں میگنیشیم کے 180 گولے ہوتے ہیں اور ہر گولہ دو منٹ تک جلتے رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اے آر ای ایس کا کہنا ہے کہ ایسے راکٹوں کا مقصد درختوں اور دیگر ایسے مواد میں آگ لگانا ہے جو جل سکتا ہو۔ دوسرے معنوں میں اس کا مقصد تباہی پھیلانا ہے۔
خبر رساں ادارے وائس نیوز نے 2014میں اُس سال اگست میں پیش آنے والے ایک واقعے کی خبر دی تھی جب یو کرین کے قصبے الوویسک میں ایک بڑی لڑائی چھڑ گئی تھی اور یو کرین کو پسپائی اختیارکرنا پڑی تھی۔
تب عینی شاہدین نے ایسے ہی راکٹ داغے جانے اور آتشزدگی کی اطلاعات دی تھیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تب بھی اس آتش گیر مادے کو سفید فاسفورس ہی کہا گیا تھااور چونکہ الوویسک ایک متنازعہ علاقہ تھا اس لیے روس اور یوکرین نے ایک دوسرے کو آتش گیر مادہ استعمال کرنے کا مؤردِ الزام ٹہرایا تھا۔
ویب سائیٹ پولیگراف ڈاٹ انفو کے مطابق ہو سکتا ہے یو کرین کے بعض ذرائع نے اسی تناظر میں تازہ ترین واقعے کو سفید فاسفورس بتایا ہولیکن یو کرین کے دیگر ذرائع پوپسنیا میں اس روشنی کی وجہ 9ایم22ایس راکٹ کو قرار دے رہے ہیں۔
سفید فاسفورس ایک ایسا کیمیائی مادہ ہے جو چھونے پر جلا دیتا ہے اور ہوا میں جل اٹھتا ہے اور اس سے کثیف دھواں پیدا ہوتا ہے۔
اس کی اسی خاصیت کی وجہ سے کہ یہ آتشگیر ہے اور اسے بھجانا بے حد مشکل ہے، ماضی میں سفید فاسفورس کو فوجیوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔
اقوامِ متحدہ کے تحت بعض روایتی ہتھیاروں کے کنونشن میں اس بات کی ممانعت ہے کہ آتشگیر ہتھیار بلا امتیاز عام شہریوں اور فوجی اہداف کے خلاف استعمال کیے جائیں خاص طور پر جہاں شہری آبادی زیادہ ہو۔ ان کا استعمال ان جنگلوں اور درختوں پر بھی منع ہے جو فوجی سازوسامان کو چھپانے کے لیے استعمال نہیں ہو رہے۔
روس، یو کرین اور امریکہ ان سو ممالک میں شامل ہیں جو اقوامِ متحدہ کے اس کنونشن میں فریق ہیں۔