اپوزیشن کی تحریکِ اعتماد کے خلاف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے کے عدالتی فیصلے کو اپوزیشن اور قانونی ماہرین نظریۂ ضرورت کی شکست اور آئین کی فتح قرار دے رہے ہیں۔
جب کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے جمعے کو قوم سے اپنے خطاب میں عدالتی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا۔ عدالتی حکم پر بحال ہونے والی حکومت کے وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے بھی اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ اس فیصلے سے ملک میں آئینی بحران بڑھے گا۔
حزبِ اختلاف کے قائد شہباز شریف ، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر سینئر قانونی ماہرین نے عدالتی فیصلے کو نظریۂ ضرورت کی شکست قرار دیا ہے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں نظریۂ ضرورت ہر کچھ عرصے بعد زیرِ بحث آتا ہے۔ قانون اور آئین کی تشریح سے متعلق یہ تصور ملک کے قیام کے پہلے 10 سال میں ہی سامنے آگیا تھا۔
نظریۂ ضرورت کی تاریخ
آسٹریا سے تعلق رکھنے والے جج اور قانون دان ہنس کیلسن(1881 - 1973) کو نظریۂ ضرورت کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔ اس تصور کے تحت ہنگامی حالات میں ریاست کے بعض غیر قانونی اقدامات کے جواز کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مورخین دو برطانوی ججوں ولیم بلیک اسٹون(1868-1773) اور ہنری ڈی بریکسٹن(1268-1210) کو بھی اس تصور کے بانیوں میں شمار کرتے ہیں۔
ان ماہرینِ قانون کے مطابق ریاست کے وہ اقدامات جو غیر قانونی ہوں انہیں اشد ضرورت کے تحت جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر ریاست کا کوئی ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کرے تو مجبوری کے تحت ان اقدامات کو بھی قانونی تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
مؤرخین کے مطابق یہ نظریہ اگرچہ برطانیہ یا مغربی عدالتی روایت میں کبھی استعمال نہیں ہوا لیکن پاکستان میں مولوی تمیز الدین کیس میں اس کی بنیاد پر جسٹس منیر نے گورنر جنرل کے حق میں فیصلہ سنادیا۔
پہلا آئینی بحران
سن 1951 میں ملک کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین نے گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزارتِ عظمی سنبھال لی تھی اور بیورو کریٹ غلام محمد کو گورنر جنرل بنا دیا تھا۔
قیامِ پاکستان کو کئی برس گزرنے کے باوجود اس وقت تک سیاسی قیادت ملک کا متفقہ آئین نہیں بنا سکی تھی۔قانونِ آزادیٔ ہند 1947 کی دفعہ 18 اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کو بعض ترامیم کے ساتھ عبوری آئین کے طور پر اختیار کیا گیا تھا۔ یہ محض انتظامی امور چلانے کے لیے تھا لیکن ایک مکمل دستور کی ضروریات پوری نہیں کرتا تھا۔
لیاقت علی خان متفقہ آئین نہیں بنا سکے اور اس کے بعد خواجہ ناظم الدین بھی یہ کام نہیں کر سکے۔خواجہ ناظم الدین نے بنیادی اصولوں کی ایک کمیٹی بنا کر دستور ساز اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے سفارشات تیار کرائیں۔ لیکن پارلیمنٹ میں تمام صوبوں کی مساوی نمائندگی کی تجویز کی وجہ سے مسلم لیگ کے اندر ہی تنازعات پیدا ہو گئے۔
اسی دوران احمدیوں کو غیر مسلم قرار دلانے کی تحریک شروع ہوگئی۔ اس تحریک کا بنیادی مطالبہ تھا کہ احمدی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیرِ خارجہ سر ظفر اللہ خان کو کابینہ سے برطرف کیا جائے۔
صفدر محمود اپنی کتاب ’مسلم لیگ کا دورِ حکومت‘ میں لکھتے ہیں کہ خواجہ ناظم الدین کے مذہبی جھکاؤ اور کاہلی، علما سے خوف اور نااہلی نے اس تحریک کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے مغربی پاکستان کے کئی شہروں میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوا۔
گورنر جنرل غلام محمد اس صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے تھے اور انہوں نے اس بحران کو بنیاد بنا کر 17 اپریل 1953 کو خواجہ ناظم الدین کو وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کردیا۔اس کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیرِ اعظم مقرر کردیا۔
وزیرِ اعظم محمد علی نے دستور سازی کے لیے ایک فارمولا پیش کیا۔ اس کے تحت مجلسِ دستور ساز نے آزادیٔ ہند ایکٹ میں بعض ایسی ترامیم کیں جن کے نتیجے میں گورنر جنرل کے اختیارات محدود ہوسکتے تھے۔
صفدر محمود لکھتے ہیں کہ غلام محمد گورنر جنرل کی حیثیت سے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن اگر آئین بن جاتا تو یہ ممکن نہ ہوتا۔ ان ترامیم کے بعد غلام محمد کے خدشات مزید بڑھ گئے اور انہوں نے 24 اکتوبر 1954 کو دستور ساز اسمبلی ہی کو تحلیل کرکے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کردی۔
گورنر جنرل کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اس اقدام کے خلاف دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے (جنھیں اس وقت اسمبلی کا صدر کہا جاتا تھا) سندھ چیف کورٹ ( ہائی کورٹ) سے رجوع کر لیا۔
مولوی تمیز الدین نے اپنی درخواست میں عدالت سے گورنر جنرل کے دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے حکم نامے اور کابینہ کی برطرفی کے فیصلوں کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی۔
سندھ چیف کورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو اختیارات سے تجاوز قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ دستور ساز اسمبلی ایک خود مختار ادارہ ہے اور گورنر جنرل کو جواب دہ نہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ 1947 سے لے کر 1954 میں یہ مقدمہ عدالت میں آنے تک دستور ساز اسمبلی نے کئی قوانین بنائے اور ان میں ترامیم کی ہیں لیکن ان کی منظوری گورنر جنرل سے نہیں لی گئی۔ اس کے باوجود ان قوانین کے مطابق عدالتی فیصلے ہوتے رہے۔
سندھ چیف کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ گورنرجنرل کو اسمبلی برطرف کرنے اور ہنگامی حالت کے نفاذ کا اختیار نہیں ہے اور وہ دستور ساز اسمبلی کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی کی توثیق کا پابند ہے۔
ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف گورنر جنرل نے اس وقت کی فیڈرل کورٹ میں اپیل کر دی اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ برطانیہ سے آزاد ہونے والی ماتحت ریاست (ڈومینین) میں کسی بھی قانون سازی کے لیے گورنر جنرل کی توثیق ضروری ہے۔
نظریۂ ضرورت پاکستانی عدالتوں میں
اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس محمد منیر تھے۔جسٹس منیر کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اس اپیل کی سماعت کی جس میں گورنر جنرل نے یہ سوال اٹھایا کہ ملکۂ برطانیہ کے نامزد کردہ گورنر جنرل کے پاس دستور ساز اسمبلی کے بنائے گئے قوانین منسوخ کرنے کا اختیار ہے یا نہیں؟ اور کیا دستور ساز اسمبلی 1947 کے بعد 1954 تک آئین سازی میں کامیاب نہ ہونے کی وجہ سے نمائندگی کے حق سے محروم ہوگئی ہے۔
اس اپیل پر 21 مارچ 1955 کو عدالت نے فیصلہ سنایا۔ جس کےبعد پہلی مرتبہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں’نظریۂ ضرورت‘ کی بازگشت سنائی دی۔
پانچ رکنی بینچ کے اکثریتی فیصلے میں عدالت نے دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کی قانونی حیثیت کا تعین نہیں کیا لیکن ریاست میں قانون سازی کو گورنر جنرل کی توثیق سے مشروط کردیا تھا۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سندھ چیف کورٹ کو دستور ساز اسمبلی تحلیل کرنے کے گورنر جنرل کے فیصلے کو کالعدم قراردینے کا اختیار نہیں تھا۔
اس فیصلے میں جسٹس اے آر کارنیلئس نے اختلافی نوٹ لکھا جس میں انہوں نے لکھا کہ قانون سازی کے لیے گورنر جنرل کی توثیق لازمی نہیں ہے۔ پاکستان نے قانونِ آزادیٔ ہند کو اختیار کیا ہے لیکن آزاد ریاست کی حیثیت سے یہاں گورنر جنرل کو تاجِ برطانیہ کے نمائندے جیسے اختیارات حاصل نہیں۔
آرمی چیف کابینہ میں!
عدالتی فیصلہ آنے کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی دوبارہ تحلیل کر دی اور وزیرِ اعظم محمد علی بوگرہ کی سربراہی میں نئی کابینہ تشکیل دے دی جس میں سرحد سے ڈاکٹر خان صاحب اور مشرقی پاکستان سے حسین شہید سہرودی جیسے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل ایوب خان کو بھی وزارتِ دفاع کا عہدہ دے کر کابینہ میں شامل کر لیا گیا۔
حامد خان اپنی کتاب ’کونسٹی ٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ مولوی تمیز الدین کیس کے اس فیصلے سے فوج اور بیوروکریسی ملک میں بادشاہ گر بن گئے اور سیاست دانوں کو مزید دیوار سے لگا دیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ جسٹس منیر کے اس فیصلے نے مستقبل کی فوجی مداخلتوں کی راہ بھی ہموار کی اور اقتدار کو طول دینے کے لیے بیورکریسی اور فوجی قیادت کو عدلیہ پر انحصار کا راستہ بھی دکھایا۔اس فیصلے کے بعد اسکندر مرزا اور فوج کے سربراہ ایوب خان کابینہ میں شامل ہوئے اور ملک میں پہلے مارشل لا کا راستہ ہموار ہوا۔
کب کب نظریۂ ضرورت استعمال ہوا؟
قانون دان اور پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ پر کئی کتابوں کے مصنف حامد خان کا کہنا ہے کہ مولوی تمیز الدین کیس کے بعد کئی مواقع پر نظریۂ ضرورت آئین سے تجاوز کو جواز دینے کے لیے استعمال ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے بعد 1958 میں اسکندر مرزا نے جب ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کیا تو اسی نظریۂ ضرورت کے تحت ڈوسو بنام وفاقِ پاکستان کیس میں اس اقدام کو جواز فراہم کیا گیا۔
اسی طرح 1969 میں جب سیاست دان ملک غلام جیلانی اور روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف گوہر کو ڈیفنس آف پاکستان رولز اور مارشل لا ریگولیشن کے تحت گرفتار کیا گیا تو ان کی رہائی کے لیے لاہور اور سندھ ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئیں۔
ان درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے ڈوسو بنام پاکستان کیس کا حوالہ دیتے ہوئے مارشل لا کے تحت اقدمات میں اس معاملے کو اپنے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیتے ہوئے جائز قرار دے دیا۔ حامد خان کے مطابق یہ بھی نظریۂ ضرورت کی بنیاد پر فیصلے کی مثال تھی۔
بعدازاں 1972 میں چیف جسٹس حمود الرحمٰن نے عاصمہ جیلانی کیس میں ہائی کورٹ کے ان فیصلوں میں نظریۂ ضرورت کے استعمال کو غلط قرار دیا تھا۔
عاصمہ جیلانی کیس مارشل لا اقدامات کو غیر آئینی اور یحییٰ خان کو اقتدار پر قابض قرار دینے کے حوالے سے تاریخی تصور ہوتا ہے لیکن اس کے بعد بھی آئین سے تجاوز کے لیے نظریۂ ضرورت کا استعمال ختم نہیں ہوا۔
حامد خان کے مطابق 1977 میں نصرت بھٹو بنام چیف آف آرمی اسٹاف کیس میں جنرل ضیا الحق کے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت گرا کر مارشل لا نافذ کرنے کے اقدام کواسی نظریے کے تحت تحفظ دیا گیا۔
آئینی ماہرین حاجی سیف اللہ کیس کو بھی اس سلسلے کی ایک کڑی قرار دیتے ہیں جب سپریم کورٹ نے 1988 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کی صدر جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں برطرفی کو تو غیرآئینی قرار دیا لیکن نئے الیکشن کے اعلان اور نگران حکومت کے قیام کی بنیاد پر حکومت کو بحال نہیں کیا اور عملی طور پر جنرل ضیا الحق کے فیصلے کو ہی برقرار رکھا۔
اسی طرح جنرل مشرف نے جب وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت ختم کی تو ظفر علی شاہ و دیگر بنام جنرل پرویز مشرف میں نہ صرف آرمی چیف کے اقدام کی حیثیت برقرار رکھی بلکہ انہیں قانون سازی کا بھی اختیار دے دیا۔
ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس اور نظریۂ ضرورت؟
رواں ہفتے عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کی سماعت ہوئی تو ایک بار پھر نظریۂ ضرورت کی بازگشت سنائی دینے لگی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سماعت میں سندھ بار کونسل کی نمائندگی کرنے والے بیرسٹر صلاح الدین احمد اس کی یہ وجہ بتاتے ہیں کہ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا تعین کردیا جائے لیکن آئندہ انتخابات سے متعلق وزیرِ اعظم اور صدر کے اقدامات کو نہ چھیڑا جائے۔
اس دوران حاجی سیف اللہ کیس کی مثالیں بھی سامنے آئیں اور اسی لیے صلاح الدین احمد کے بقول اس کیس سے متعلق نظریۂ ضرورت کی باتیں ہونے لگیں۔
لیکن جب فیصلہ آیا تو اس میں ان دلائل کو تسلیم نہیں کیا گیا اور مبینہ غیر ملکی سازش کی بنیاد پر اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دے دیا۔
اس رولنگ کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے اسمبلی کی تحلیل اور آئندہ انتخابات کے لیے کیے گئے وزیر اعظم اور صدر کے اقدامات کو بھی خلافِ آئین قرار دے کر اسمبلی اور حکومت کو بحال کردیا۔
ڈر تو تھا لیکن۔۔۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کےصدر اور سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ نظریۂ ضرورت کو تو اس دن شکست ہوگئی تھی جب 2009 میں سپریم کورٹ کے 14 ججز نے پرویز مشرف کی تین نومبر 2007 کو نافذ کی گئی ایمرجنسی کو کالعدم قرار دیا تھا اور اس کے تحت ہونے والے اقدامات کو بھی کالعدم کر دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اور اس کی بنیاد پر کیے گئے اقدامات کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے سے ایک بار پھر نظریۂ ضرورت کو شکست ہوئی ہے۔ البتہ ابتدا میں بحث کا رخ دیکھ کر ڈرتو پیدا ہوا تھا کہ کہیں یہ دوبارہ زندہ نہ ہوجائے۔ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے عدلیہ پر اعتماد بڑھا ہے اور قانون کی عمل داری کو تقویت ملی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ہائی کورٹ کے جج صاحبان کو بھی اداروں کے اختیار سے تجاوز کے خلاف مقدمات میں دوٹوک فیصلے کرنے کا حوصلہ دے گا۔
حامد خان بھی اس فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ امید ہے کہ اس فیصلے کے بعد ہماری عدالتی تاریخ میں نظریۂ ضرورت کا باب بند ہوجائے گا۔
سپریم کورٹ کا پارلیمانی حدود میں تجاوز؟
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس میں اسپیکر کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے دن اور وقت کا تعین کرکے پابند کیا گیا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر بھی فیصلہ دیا گیا ہے۔ اس لیے یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 69 میں پارلیمانی کارروائی کو عدالت سے حاصل استثنیٰ کے خلاف ہے۔
حامد خان کا کہنا ہے سپریم کورٹ پارلیمان پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ اس سے قبل وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی عدالت سے نااہلی پر اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کی رولنگ کو بھی عدالت نے تسلیم نہیں کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے معمول کی کارروائی سے متعلق فیصلہ نہیں دیا بلکہ آئین ہی کے آرٹیکل 95 کے تحت عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری کی کارروائی بحال کی ہے جو رولنگ کی وجہ سے رک گئی تھی۔
رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 69 اور 270 ایک کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی اور قانون سازی کو عدالت سے استثنیٰ دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود جب بھی کوئی بنیادی آئینی سوال پیدا ہوا ہے تو عدالت نے فیصلے دیے ہیں۔ ان کے بقول ایسے 25، 30 فیصلے ہیں جن میں پارلیمنٹ کے اقدامات پر عدالتی فیصلے آچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ معاملے میں عدالت کے احکامات اس لیے اہم تھے کہ رولنگ کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے سے آرٹیکل 95 کے تحت قائدِ ایوان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا حق غیر مؤثر کیا جارہا تھا۔
رشید اے رضوی کہتے ہیں کہ اجلاس کے بارے میں عدالتی احکامات کو اس لیے مداخلت نہیں کہا جاسکتا کہ عدالت نے ایوان میں کوئی نئی کارروائی شروع کرنے کے لیے نہیں کہا ہے بلکہ پہلے سے زیرِ التوا ایک آئینی کارروائی کو مکمل کرنے کا حکم جاری کیا۔
غیر آئینی اقدام پر کارروائی
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے متعلق یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہےکہ اس میں جن عہدے داران کے اقدامات کو غیرآئینی قرار دیا گیا ہے، ان کے خلاف کسی کارروائی کا حکم نہیں دیا گیا۔
اس پر بیرسٹر صلاح الدین احمد کا کہنا ہے کہ عدالت کا تفصیلی فیصلہ ابھی جاری نہیں ہوا ہے۔ ممکن ہے اس میں یہ پہلو آجائے۔ تاہم ان کے خیال میں سیاسی جماعتوں کو فی الوقت عدالتی فیصلے پر فوکس کرنا چاہیے اور عوام کے اصل مسائل کی جانب متوجہ ہونا چاہیے۔