رسائی کے لنکس

ٹوئٹر کے سب سے بڑے شیئر ہولڈر ایلن مسک نے بورڈ ممبر بننے سے انکار کیوں کیا؟


FILE PHOTO: Tesla hands over first cars produced at new plant in Gruenheide
FILE PHOTO: Tesla hands over first cars produced at new plant in Gruenheide

دنیا کے امیر ترین شخص ایلن مسک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ انہیں بورڈ کے رکن بننے کی پیشکش کمپنی میں %9.1 حصص حاصل کرنے کے بعد ٹوئیٹر کی جانب سے کی گئی تھی۔

ایلن مسک کے بورڈ میں شامل نہ ہونے کے فیصلے کا اعلان اتوار کی رات کمپنی کے موجودہ سربراہ پراگ اگروال کی جانب سے کیا گیا۔

چھ روز قبل ہی پراگ اگروال نے ایک ٹویٹ میں ایلن مسک کی کمپنی بورڈ میں شمولیت کا اعلان کیا تھا جس کا باقاعدہ اطلاق اور اعلان ہفتے کے روز ہونا تھا۔

پراگ اگروال کی چھ روز قبل کی گئی ٹویٹس میں کہا گیا تھا کہ ایلن مسک ٹوئیٹر پر بھرپور یقین بھی رکھتے ہیں اور بھرپور تنقید بھی کرتے ہیں، ٹوئیٹر اور اس کے بورڈ روم کو ایسی ہی مضبوط آواز کی ضرورت تھی۔

دوسری طرف ایلن مسک جن کی وجہہ شہرت صرف دنیا کے امیر ترین شخص اور ٹیسلا اور سپیس ایکس کمپنی کا سربراہ ہونا نہیں بلکہ ان کی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئیٹر پر کی جانے والی پوسٹس بھی ہیں جن میں وہ اکثر ایسے شگوفے چھوڑتے ہیں جن سے کئی لوگ محظوظ ہوتے ہیں تو بعض کے منہ حیرت سے کھلے رہ جاتے ہیں۔

یاد رہے ٹوئیٹر پر ان کے آٹھ کروڑ سے زائد فالوورز ہیں اور ان کے اثرو رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی ٹویٹس پر حصص مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ دیکھا جاتا ہے۔

ماضی میں امیر ترین افراد پر ٹیکس لگانے کی تجویز دینے پر ایلن مسک نے ڈیموکریٹک راہنما برنی سینڈرز کی عمر رسیدگی پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ وہ (ایلن مسک) بار بار یہ بھول جاتے ہیں کہ برنی سینڈرز ابھی بھی زندہ ہیں۔ ایسا ہی ایک اورطنزیہ جواب اسی بات پر وہ امریکی سینیٹر رون وائڈن کو بھی دے چکے ہیں۔

سال 2018 میں انہوں نے تھائی لینڈ کے غار میں پھنسے بچوں کے ریسکیو آپریشن میں شریک ایک برطانوی غوطہ خور کو پیڈوفائل کہا تھا۔ بعد میں انہیں اس پر معافی مانگنی پڑی تھی۔

صرف یہی نہیں مئی 2020 میں ان کی اپنی ہی کمپنی ٹیسلا کے بارے میں محض ایک ٹویٹ کی وجہ سے جس میں انہوں نے کہا کہ ان کے نزدیک ٹیسلا کے حصص کی قیمت غیر ضروری طور پر زیادہ ہے، ٹیسلا کی قدر میں 14 ارب ڈالرز کی کمی واقع ہوگئی۔ خود ایلن مسک کے اس میں 3 ارب ڈالرز ڈوبے تھے۔

اس سے بھی پیچھے جائیں تو ان کی ایک ٹویٹ انہیں شاید اس سے بھی مہنگی بھی پڑ گئی تھی جب انہوں نے یہ لکھا کہ ٹیسلا کی 420 ڈالرز فی حصص قیمت پر فنڈنگ کا بندوبست ہوگیا ہے اور کمپنی پرائیویٹ ہونے جا رہی ہے۔

اس ٹویٹ پر ایلون مسک اور ٹیسلا کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے فراڈ کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تصفیہ کے طور پر ایلن مسک کو کمپنی کی چیئرمین شپ سے ہاتھ دھونے پڑے۔ کمپنی اور مسک نے ملکر جرمانے کے طور پر نہ صرف 40 ملین ڈالرز ادا کیے بلکہ انہیں اس بات کا پابند بھی کیا گیا کہ وہ بغیر وکیل کی اجازت کے کمپنی کے کاروبار کے بارے میں کوئی ٹویٹ یا اعلان نہیں کریں گے۔

یکے بعد دیگرے اسکینڈلز کے باوجود ایلن مسک تواتر سے ٹویٹس کر کے پھلھجڑیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔ وہ بظاہر ایک ایسا ذہین بچہ دکھائی دیتے ہیں جو کامیابی کے نشے میں چور، جو دل میں آئے بے دھڑک کہہ دیتا ہو۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئیٹر کہ %9.2 فیصد حصص خریدنے پر بھی انہوں نے ایسا ہی کیا، گو کہ مارچ کے وسط میں وہ یہ شئیرز خرید چکے تھے مگر اس کا اعلان 4 اپریل کو سامنے آیا تاہم 25 مارچ کو انہوں نے ٹوئیٹر پر ہی یہ لکھ کر رائے شماری کرائی کہ 'آزادیء رائے جمہوریت کا اہم ستون ہے، کیا صارفین کے نزدیک کی ٹوئیٹر آزادیء رائے کو یقینی بنا رہا ہے؟' پول میں بیس لاکھ سے زائد صارفین نے حصہ لیا جن میں 70 فیصد کا کہنا تھا کہ ٹوئیٹر ایسا کرنے میں ناکام رہا ہے۔

اگلے ہی روز ایلن مسک لکھتے ہیں کہ اب جب کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ٹوئیٹر آزادیء رائے کی پامالی کر رہا ہے تو کیا پھر کسی نئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی ضرورت ہے؟

بعض تجزیہ کار ایلن مسک کی کمپنی کے سب سے بڑے شئیر ہولڈر بننے کے بعد ایسی ٹویٹس کو ان کے کمپنی پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

بورڈ ممبر بننے سے انکار کی وجہ بھی بعض تجزیہ کار یہی گردان رہے ہیں کہ اگر ایلن مسک بورڈ ممبر بن جاتے تو وہ ٹوئیٹر میں %14.9 سے زیادہ حصص نہیں خرید پاتے مگر اب وہ ایسا کرنے میں آزاد ہونگے اور وہ آہستہ آہستہ کمپنی کے مزید شیئرز خرید سکتے ہیں۔

ہفتے کو رات گئے ایلن مسک ایک بار پھر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئیٹر پر متحرک پائے گئے اور ان کا ہدف کوئی اور نہیں خود ٹوئیٹر تھا۔

انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ٹوئیٹر پر سب سے زیادہ فالوورز رکھنے والی شخصیات شازو نادر ہی ٹویٹ کرتی ہیں۔ انہوں نے امریکی گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تین ماہ میں ایک ٹویٹ کی جبکہ جسٹن بیبر نے ایک سال کے عرصے میں صرف ایک ٹویٹ کی۔

انہوں نے اس کے علاؤہ بھی کئی ٹویٹس کیں جنہیں بعد میں انہوں نے خود ڈیلیٹ کر دیا۔ ان ٹویٹس میں رائے شماری کا ایک نیا پول بھی شامل تھا جس میں انہوں نے تجویز کیا تھا کہ Twitter کے لفظ میں سے W کا حرف خارج کر دیا جائے۔

ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ کیوں نہ سان فرانسسکو شہر میں ٹوئیٹر کے ہیڈکوارٹرز کی عمارت کو بے گھر افراد کی رہائش گاہ میں تبدیل کردیا جائے؟

انہوں نے ٹوئیٹر کے حوالے سے اس کے علاؤہ بھی ٹویٹس کیں جو بعد میں خود ہی ہٹا دیں۔

بعض افراد کی رائے میں ایلن مسک کی ٹویٹر کے بورڈ میں آخر وقت پر شمولیت سے انکار اور اس قسم کی ٹویٹس سے بظاہر یہ عندیہ مل رہا ہے کہ جیسے ٹوئیٹر کمپنی اور اس کے سب سے بڑے شئیر ہولڈر کے درمیان رشتے کی ابتدا ہی میں خلیج پیدا ہوگئی ہو۔

US Elon Musk Twitter
US Elon Musk Twitter

بلال زبیری امریکی سلیکون ویلی میں لکس کیپٹل فنڈ نامی ادارے میں عمومی پارٹنر ہیں۔ اس وینچر کیپیٹل فنڈ کی ٹیکنالوجی کمپنیز میں چار ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری ہے۔ بلال اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ ٹوئیٹر اور ایلن مسک کے درمیان کسی قسم کی چپقلش ہے۔

بلال زبیری نے وائس آف امریکہ کو اس تمام معاملے پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ یہاں پر ایلن مسک کی شخصیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ بلال کے بقول ایلن مسک ایسے ہی دنیا کے کامیاب ترین کاروباری شخصیت نہیں بنے، وہ ایک مختلف دماغ رکھتے ہیں اور ایک بےخوف انسان ہیں جس کی وجہ سے وہ فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور بعض اوقات نقصان بھی۔

بلال زبیری کے مطابق ٹوئیٹر خبروں کےلیے ایک بہت اہم پلیٹ فارم ہے جہاں ملکی صدور سے لیکر صحافی تک موجود ہوتے ہیں لیکن اگر اس کا موازنہ فیس بک سے کریں تو ٹوئیٹر کے صارفین کی تعداد تیس کروڑ ہے جبکہ فیس بک کے تین ارب صارفین ہیں۔ ان کے مطابق ٹوئیٹر میں بہتری کی بہت گنجائش ہے مگر یہ جمود کا شکار ہے اور ایلن مسک یہ بات بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اس میں تبدیلیاں چاہتے ہیں۔

تو پھر سوال یہ ہے کہ پھر بورڈ ممبر بننا کمپنی میں تبدیلی لانے کا بہترین ذریعہ تھا، ایلن مسک نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اس پر تبصرے کرتے ہوئے بلال زبیری کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات پر قطعی حیرت نہیں کیونکہ بورڈ ممبر ہونا ذمہ داری کا کام ہے جو وقت طلب بھی ہوسکتا ہے جبکہ ایلن مسک پہلے ہی بے انتہا مصروف شخصیت ہیں جو دو بہت بڑی کمپنیز چلا رہے ہیں۔

بلال اسی میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بورڈ ممبر بننا ایلن مسک کے لیے کسی درد سر سے کم نہ ہوتا کیونکہ پھر ان کہ ٹوئیٹر کے بارے میں کہی ہوئی ہر بات کمپنی پالیسی کی عکاس سمجھی جاتی۔ بلال کے بقول ایلن مسک کو ماضی میں پہلے ہی ٹیسلا کے بارے میں ٹویٹ کرنے پر سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ٹوئیٹر کا بورڈ ممبر بننا ان کے لیے مزید ایسی آزمائشیں لاتا۔

جہاں تک کمپنی میں بہتری لانے کی بات ہے تو بلال سمجھتے ہیں یہ اثر اور رسوخ ایلن مسک بورڈ سے باہر رہتے ہوئے بھی رکھتے ہیں کہ کمپنی کو صارفین میں مقبول بنانے اور اسے مالی طور پر کامیاب بنانے کے لیے دباؤ اور مشورے دیتے رہیں۔

تو پھر ایک طرف دنیا کے ایک امیر ترین اور کامیاب ترین شخص کا تاثر اور دوسری طرف اسی شخص کی بعیدالفہم ٹویٹس جیسے کوئی بچہ لوگوں کی توجہ کا طالب ہو؟ بلال کے مطابق یہ صحیح ہے کہ ایلون مسک توجہ کے طالب یا اٹینشن سیکر نظر آتے ہیں۔ بلال کہ بقول وہ اکثر فضول اور بے تکی ٹویٹس کرتے ہیں جس کی وجہ بظاہر یہ نظر آتی ہے کہ لوگ سوچیں کہ آیا وہ مذاق کررہے ہیں یا سنجیدہ ہیں؟ لوگ ان کے بارے میں بات کریں گے، کبھی خلاف ہونگے کبھی حق میں اس طرح ایلن مسک کی شخصیت ان کے لیے ایک خاص کشش رکھے گی اور پھر مسک جب چاہیں یہ توجہ اپنے کاروباری فوائد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

اور بلال نے شاید درست ہی کہا، ٹوئٹر کے بارے میں اتنے روز سے جاری تنقید، بورڈ ممبر بننے پر رضامندی ظاہر کرنا اور پھر آخری روز انکار کر دینے پر ایلن مسک آج نہ صرف ٹویٹر پر بلکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی زیر بحث ہیں۔

ایلن مسک ٹوئیٹر کی پالیسیز اور طریقہ کاروبار پر کس حد تک اثر انداز ہونگے یہ آنے والے دن ہی بتائیں گے، اور کچھ نہیں تو صارفین ایلن مسک کے لیے لہو گرم رکھنے کا بہانہ، ان کی ٹویٹس سے ہی محظوظ ہوتے رہیں گے۔

XS
SM
MD
LG