برطانیہ میں مقیم پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحاق ڈار کا کہنا ہے پارٹی سربراہ نواز شریف چاہتے ہیں کہ کل ہی الیکشن ہوجائیں لیکن الیکشن کمیشن آئینی ترامیم کی وجہ سے نئی حلقہ بندیوں پر کام کر رہا ہے۔ لہٰذا شہباز شریف حکومت چند بنیادی کاموں کے بعد اگست تک انتخابات کا اعلان کرسکتی ہے۔
وائس آف امریکہ کو ٹیلی فون پر دیےگئے انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے معاشی معاملات میں کہاں غلطیاں کی ہیں، ان غلطیوں کا ازالہ کریں گے اور معیشت کو ٹریک پر لائیں گے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے تنخواہوں اور پینشن میں دس فی صد اضافے کے اعلان پر انہوں نے کہا کہ شہریوں پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کے لیے وزیرِ اعظم پاکستان نے بہترین اقدام کیا ہے، عوام کو ریلیف دینے کے لیے تنگیوں کے درمیان سے بھی گنجائش نکالنا پڑتی ہے۔
واضح رہے کہ اسحاق ڈار اکتوبر 2017 سے برطانیہ میں مقیم ہیں وہ علاج کرانے کی غرض سے وہاں گئے تھے۔ البتہ پاکستان میں ان کے خلاف کرپشن کیسز بھی ہیں اور قومی احتساب بیورو(نیب)کی جانب سے مقدمات میں پیش نہ ہونے پر انہیں اشتہاری بھی قرار دیا جاچکا ہے۔
اسحاق ڈار پر امید ہیں کہ نئی حکومت معاشی بحران پر قابو پا لے گی۔ ان کے بقول 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد لگنے والی عالمی پابندیوں کے اثرات سے بھی نواز حکومت نے نمٹ لیا تھا اور2013میں جب ملک کو معاشی طور پر غیر مستحکم قراردیا گیا تو مسلم لیگ (ن) نے اقتدار میں آنے کے بعد معیشت کو پھرمستحکم کیا۔
سابق وزیرِخزانہ نے تحریک انصاف کی تین سال سات ماہ پر محیط حکومت کی معاشی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ نا تجربہ کار قیادت نے مہنگائی کو آسمان تک پہنچا دیا تھا۔ عمران حکومت کا یہ استدلال درست نہیں کہ کرونا وائرس کے سبب ملکی معیشت پر برا اثر پڑا۔ ان کے بقول کرونا کے آنے سے پہلے ہی پاکستان کی معیشت تنزلی کا شکار ہو گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوئی تو کسی بھی نئی حکومت کے لیے معاشی اشاریے تاریخ کے بہترین اشاریے تھے جب کہ تحریک انصا ف سے اقتدار جب مسلم لیگ (ن) کو دوبارہ واپس منتقل ہوا ہے تو اس چار سال سے بھی کم عرصے میں عمران خان بدترین معیشت چھوڑ کر گئے ہیں۔
سن 2018 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے ذمے داروں کے تعین سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس کی ضرورت نہیں، ہمیں آگے بڑھنا ہوگا کیوں کہ ملک کا پہلے ہی بہت زیادہ نقصان ہو چکاہے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ اسحاق ڈار پنجاب سے سینیٹر بھی منتخب ہوئے تھے مگر انہوں نے بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے حلف نہیں اٹھایا ہے۔وہ سوشل میڈیا پر عمران خان اور ان کی سابق حکومت کی معاشی پالیسیوں کے سخت ناقد بھی رہے ہیں۔
اسحاق ڈار نے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اپنی حکومت کے خاتمے کو غیر ملکی سازش قرار دینے کے بیانیے کی تردید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سفارت کار کی جانب سے بھجوائے گئے 'سائفر' کو عمران خان نے سیاسی فائدے کے لیے ایک سازش بنا کر پیش کیا۔
انہوں نے شہباز شریف کی جانب سے'لیٹر گیٹ' کی تحقیقات کے اعلان کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف سے متعلق اسحاق ڈار نے بتایا کہ کرونا کے سبب نواز شریف کے علاج میں تاخیر ہوئی مگر اب یہ علاج شروع ہو چکا ہے، انہیں جن مقدمات میں سزائیں دی گئیں ان کے خلاف اپیلیں چل رہی ہیں اور وہ پاکستان جا کر مقدمات کا سامنا کریں گے۔
انہوں نے اپنے خلاف ٹیکس فائل نہ کرنے کے مقدمے کو بھونڈا قرار دیا اور کہا کہ ایسے میں جب انصاف کا عمل شروع ہو چکا ہے انہیں امید ہے کہ انہیں بھی انصاف ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ شہباز حکومت فوج کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش مند ہو گی، تمام اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنا ہو گا اور اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہو گا۔
اسحاق ڈار پرعزم ہیں کہ عام انتخابات کا معاملہ 2023 تک نہیں جائے گا تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ ان کا اپنا تجزیہ ہے پارٹی کی حکمتِ عملی نہیں۔