رسائی کے لنکس

پاکستان کی سیاسی صورتِ حال: 'حکومت تبدیل ہو یا نہ ہو آئندہ بجٹ بنانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کی فضا معیشت کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہےجس سے معاشی اشاریے مزید خراب ہوسکتے ہیں۔

پیر کو معیشت پر جاری کی گئی ماہانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں بڑھتے ہوئے تناؤ، عالمی مارکیٹ میں اجناس کی بلند قیمتوں کے ساتھ ملکی سیاسی صورتِ حال معیشت کے لیے خطرات بڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے غیریقینی کے باعث پاکستان کی برآمدی مارکیٹ پر گہرے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس کا اثر پاکستان کی برآمدات میں کمی کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔

دوسری جانب عالمی مارکیٹ میں مختلف اجناس کی قیمتوں میں مزید اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق فروری میں توانائی سے متعلق اجناس کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں سات اعشاریہ سات فی صد جب کہ توانائی کے علاوہ دیگر اجناس کی قیمتوں میں چار اعشاریہ دو فی صد اضافہ دیکھا گیا۔

رپورٹ کے مندرجات کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران توانائی پیدا کرنے والی اجناس 63 فی صدسے زائد اور توانائی کے علاوہ دیگر اجناس 22 فی صد سے زائد مہنگی ہوچکی ہیں۔ جن میں زرعی اجناس میں چار اعشاریہ پانچ فی صد، دھات اور معدنیات چار اعشاریہ سات فی صد جب کہ قیمتی دھاتیں دو اعشاریہ دو فی صد شامل ہیں۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستانی معیشت میں کرونا وباکے بعد بحالی کا عمل جاری ہے لیکن داخلی اور بین الاقوامی منظر نامے میں تبدیلیوں کی وجہ سے اس میں خلل آسکتا ہے۔ افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح اور بیرونی عوامل سے جڑے خطرات معاشی عدم توازن پیدا کر رہے ہیں۔

عارف حبیب سیکوریٹیز میں معاشی امور کی ماہر ثنا توفیق کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتِ حال کی وجہ سے معاشی میدان میں غیر یقینی پائی جاتی ہے۔ جس کا مظاہرہ اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی سے بخوبی نظر آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی جانب سےتحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سے اسٹاک مارکیٹ میں مسلسل گراوٹ دیکھی جارہی ہے۔

'تجارتی خسارہ سب سے بڑا مسئلہ ہے'

ثناتوفیق نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ملک کے بنیادی معاشی اشاریے بتدریج بہتری کا اشارہ دے رہے ہیں۔زراعت، سروسز سیکٹر خاص طور پر لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں بہتر نمو دیکھی جا رہی ہے جس سے امید پیدا ہور ہی ہے کہ ملک کی شرح نمو رواں مالی سال میں پانچ اعشاریہ دو پانچ فی صد رہے گی۔

ان کے بقول ملک میں تیل اور بجلی کی کھپت میں بھی اضافہ ہوا ہے جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ یہاں معاشی سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے لیکن ان کے بقول اصل مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستانی معیشت کا زیادہ تر دارومدار درآمدات پر ہے جب کہ برآمدات اتنی نہیں کہ وہ درآمدات کے باعث ہونے والے خسارے کو پورا کرسکیں۔ یوں تجارتی خسارہ بڑھنے کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا ہے۔

اس عدم توازن کا اثر امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی صورت میں پڑتا ہے جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ غذائی اجناس کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں بلند رہنے کی وجہ سے اس وقت افراط زر کی شرح زیادہ رہے گی ۔ اور انہیں کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود کو بدستور بلند رکھنا پڑسکتا ہے ۔

ماہرین معیشت کے مطابق ایک جانب عالمی مارکیٹ میں اجناس کی بلند قیمتوں کے باعث درآمدی بل پر دباؤ زیادہ ہے جب کہ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے عارضی ری فائنانس اسکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تاجروں نے بڑے پیمانے پر مشینری درآمد کی۔ اس کے علاوہ تیل کی قیمتیں رواں سال کافی بلند رہیں جب کہ کرونا وبا سے بچاؤ کی ویکسین کی درآمد پر بھی رقم خرچ کرنا پڑی۔

زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی

ملک میں سیاسی بے یقینی کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ داروں نے تیزی سے سرمائے کا انخلا کیا ہے۔ مرکزی بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارچ میں اب تک غیر ملکی سرمایہ کاروں نے 35 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کے ٹریژری بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈزسے رقم نکال لی ہے جو اپریل 2020 کے بعد ایک ماہ میں نکالی جانے والی سب سے بڑی رقم ہے۔

اس کے علاوہ مرکزی بینک کے غیرملکی زرِمبادلہ کے ذخائر میں بھی تیزی سے کمی آئی ہے اور 24 مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے کو پاکستان کے پاس زرِمبادلہ کے کل ذخائر 21 ارب ڈالرز رہ گئےتھے۔ غیرملکی قرضوں کی واپسی اور دیگر ادائیگیوں کے باعث ایک ہفتے میں ان ذخائر میں لگ بھگ 86 کروڑ90 لاکھ ڈالرز کی کمی واقع ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ ستمبر 2021 میں یہ ذخائر 27 ارب ڈالرز کی سطح سے بلند ہو چکے تھے۔

ثنا توفیق کا مزید کہنا تھا کہ جی 20 ممالک کی جانب سے قرضوں کو ری شیڈول کرنے کا فائدہ پاکستان کو بھی پہنچا ہے۔ لیکن آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لیے ابھی مذاکرات جاری ہیں اور اس کا کوئی بہتر نتیجہ آنے کی صورت میں پاکستان کو مزید ریلیف مل سکتا ہے۔

البتہ وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں کہ اس وقت پاکستان کو قرضوں کی واپسی کےلیے بہت ہی سنگین صورتِ حال کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مرکزی بینک مستقبل میں بھی غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی پالیسی پر گامزن رہے گا اور روپے کی گرتی قدر کو ذخائرخرچ کرکے مستحکم رکھنے کی کوشش نہیں کی جائے گی جو اس سے پہلے بڑے پیمانے پر کی جاتی رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت تبدیل ہو یا نہ ہو آئندہ بجٹ بنانا کسی بھی حکومت کے لیے چیلنج سے کم نہیں ہو گا اور اسے مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ حکومت نے جو ریلیف پیکج دیا تھا اسے کس طرح جاری رکھا جا سکتا ہے یا اسے ختم کیا جائے گا۔ تاہم ان کے خیال میں آنے والے بجٹ میں محصولات بڑھانے کے لیے اشرافیہ پر نئے ٹیکس عائد کیے جاسکتے ہیں جب کہ بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے اخراجات پر قابو پانا بھی ضروری ہو گا۔

'نئی حکومت کے لیے فوری معاشی فیصلہ سازی مشکل ہوتی ہے'

ایک اور معاشی ماہر فرحان محمود کا کہنا ہے کہ تجارتی خسارہ بلند ہوتا جا رہا ہے جب کہ ہم نے رواں مالی سال میں ہی مزید بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ان کے بقول یہ مسئلہ اس وقت شدت اختیار کر جاتا ہے جب ایک نئی حکومت آتی ہے یا ملک میں سیاسی غیریقینی ہوتی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں فیصلے لینا مشکل ہوتا ہےاوریہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ نئی حکومت کی اس حوالے سے کیا پالیسی ہوگی؟

انہوں نے کہا کہ دوسرا یہ کہ حکومت نے گزشتہ دنوں آئی ایم ایف سے طے شدہ معاہدےکے برخلاف ایک معاشی ریلیف پیکیج دیا تھا لہٰذا اب یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا یہ ریلیف پیکیج جاری رہے گا یا نہیں کیوں کہ اس کے اثرات کرنسیوں کی شرح تبادلہ پر بھی پڑتے ہیں جو کسی بھی سرمایہ کار کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔

فرحان محمود کے بقول اسی طرح خسارہ بڑھنے کی صورت میں اس کے اثرات بجٹ خسارے پر پڑتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اسے پورا کرنے کے لیے ہمیں نیاقرض لینا پڑتا ہے اور یوں پورا سائیکل اثر انداز ہوتا ہے۔

ماہرمعیشت کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے ایسےوقت میں ملکی سیاسی کیفیت میں طوفان آیا ہے جب عالمی سطح پر بھی معاشی صورتِ حال تسلی بخش نہیں۔ دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں اور دیگر اجناس کی قیمتیں کافی بلند ہیں۔ ایسے میں معاشی حوالے سے فیصلہ سازی اہمیت اختیار کرجاتی ہے مگر سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اس کے منفی اثرات غالب آتے ہیں۔

ان کےمطابق سیاسی معاملات پر جس قدر جلد ہو اونٹ کسی کروٹ بٹھانا چاہیے تاکہ معاشی صورتِ حال واضح ہوسکے اور سرمایہ کاراپنا کاروبار کرسکیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG