رسائی کے لنکس

اسحاق ڈار کی سینیٹ کی رکنیت بحال، سوشل میڈیا پر حق اور مخالفت میں تبصرے


سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار (فائل فوٹو)
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار (فائل فوٹو)

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سینیٹ کی رکنیت بحال کر دی ہے۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے پیر کو جاری ہونے والے ایک نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے 21دسمبر 2021 کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے ادارہ29 جون 2018 اور 9 مارچ 2018 کے اپنے نوٹیفیکشن واپس لیتے ہوئے محمد اسحٰق ڈار کی رکنیت بحال کرتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے ان نوٹسوں میں اسحاق ڈار کے سینیٹ کے رکن منتخب ہونے کا نوٹیفیکشن واپس لیا تھا۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق، پاکستان پیپلز پارٹی کے نوازش پیرزادہ نے ایپیکس کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ اسحاق ڈار کو سینیٹ کا الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کے فیصلے کو معطل کیا جائے۔

فروری 2017 میں لاہور ہائی کورٹ کے ایپلٹ الیکشن ٹریبیونل نے نواز لیگ کے راہنما اسحاق ڈار کو اجازت دی تھی کہ وہ سینیٹ کا الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ ٹریبیونل نے ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے سابق وزیر خزانہ کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے فیصلے کو مسترد کر دیا تھا۔

اسحاق ڈار اس کے بعد سینیٹر منتخب ہو گئے۔ تاہم، انہوں نے تاحال اپنے عہدے کا حلف نہیں اٹھایا ہے۔ اکتوبر 2017 سے علاج کرانے کے دعوے کے ساتھ برطانیہ میں موجود ہیں۔ پاکستان کے قومی احتساب بیورو نے ان کو بدعنوانی کے مقدمات میں پیش نہ ہونے پر اشتہاری قرار دے رکھا ہے۔

إسحاق ڈار کی سینیٹ کی رکنیت بحال ہونے پر ان کے حامی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں، جبکہ ان کے مخالفین اس فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ نواز کے ایک حامی راجہ محمد وسیم اس فیصلے کو حق اور سچ کی فتح قرار دیتے ہوئے اسحاق ڈار کو مبارکباد دے رہے ہیں۔

سابق وزیرخزانہ کے صاحبزادے بھی ’الحمدللہ‘ کے عنوان کے ساتھ الیکشن کمیشن کا نوٹس اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر شئر کیا ہے۔

اس فیصلے ہر نالاں ایک صارف شایان علی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک اشہاری کس طرح سینیٹ کا رکن بن سکتا ہے؟

اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے رکن خالد حسین تاج نے علی ڈار کی ٹویٹ پر اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ یہ سب ایک پلان کے تحت ہو رہا ہے۔ اگر اسحاق ڈار نے 10 مارچ تک اپنے عہدے کا حلف نہ اٹھایا تو، ان کے بقول، یہ سیٹ خالی تصور کی جائے گی۔

ان کے الفاظ میں، ​’علی ڈار صاحب یہ ایک پلان کے تحت کیا گیا ہے اب نئے آرڈیننس کے تحت اسحاق ڈار صاحب کو دو ماہ کے اندر یعنی 10 مارچ تک حلف اٹھانا ہوگا۔ اگر حلف نہ اٹھایا تو وہ سیٹ خالی تصور ہوگی اس پر نیا الیکشن ہوگا یہ آرڈینینس اسحاق ڈار صاحب کی سیٹ خالی کرنے کے لیے اکتوبر میں جاری کیا گیا تھا۔‘‘​

سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے حامی بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ کئی صارفین نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ نواز لیگ کے حامی ماضی کی طرح اس بار بھی مٹھائیاں بانٹنے میں جلدی کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG