آتشی گلابی بالوں کی اکسٹینشن اور لیپرڈ پرنٹ کے سوٹ کے ساتھ ماڈل زیاد المصفر کا نیا فیشن شوٹ سعودی عرب میں صنفی قاعدوں کے بارے میں نئی بحث کو جنم دے رہا ہے۔
دارالحکومت ریاض میں زیاد فوٹو شوٹ کے لیے جیسے ہی اپنی لگژری سفید گاڑی سے نکل کر ایک مہنگے کیفے میں داخل ہوئے، ارد گرد کے افراد نے اپنے موبائل کیمروں سے ان کی تصاویر کھینچنا شروع کر دیں۔
صنفی قاعدوں کو چیلنج کرتے ایسے ملبوسات کے ساتھ فوٹو شوٹ سے 25 برس کے زیاد نے سوشل میڈیا پر ایک بڑی فالونگ حاصل کی ہے۔ وہ ان چند ہی مرد ماڈلز میں شامل ہیں جو صنفی قاعدوں کو چیلنج کر رہے ہیں۔
ان کی فوٹو شوٹس کی سوشل میڈیا پر مقبولیت کی وجہ سے کئی مہنگے برینڈ ان کو کام دے رہے ہیں۔
لیکن زیاد کا طریقۂ کار سعودی عرب جیسے قدامت پسند ملک میں خطرناک بھی قرار دیا جاتا ہے۔
اس فوٹو شوٹ کے دوران بھی جہاں بہت سے لوگ ان کے لباس اور حلیے کو ستائش بھری نظر سے دیکھ رہے تھے، جن میں نوجوان خواتین بھی شامل ہیں، جن کی ایک بڑی تعداد انہیں اسنیپ چیٹ پر فالو کرتی ہے، البتہ ان میں شامل ایک شخص نے اپنی گاڑی سے نکل کر غصے سے انہیں ہم جنس کے لقب سے پکارا۔ سعودی عرب میں ہم جنس پرستی کی سزا موت ہے۔
سعودی بادشاہت ایسے افراد کی بھی مذمت کرتی ہے جو روایتی طور پر دوسری صنف کے لیے مخصوص لباس پہنتے ہیں۔
لیکن زیاد کا کہنا ہے کہ وہ ہم جنس نہیں ہیں بلکہ وہ ایک عورت سے ہی شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ محض عالمی برینڈز کی طرف سے ذوجنس فیشن کو اپنا رہے ہیں۔
انہوں نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ وہ کبھی کبھار آن لائن یا عام زندگی میں ہونے والی ہراسانی کے باوجود سعودی عرب چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ بچپن سے ہی اپنی والدہ، خالہ اور رشتے دار خواتین کے کپڑے پہنتے تھے۔
ان کے مطابق ان کی والدہ انہیں اس بارے میں انہیں مشورے دیتی تھیں جس کی وجہ سے ان کی خواتین کے فیشن میں دلچسپی بڑھی۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے عوامی طور پر ایسے کپڑے پہننا تب شروع کیے جب ولی عہد محمد بن سلمان نے ملک میں جدید پالیسیاں اختیار کرنی شروع کر دیں۔
انہوں نے دو برس پہلے اسنیپ چیٹ پر ماڈلنگ شروع کر دی۔ اسنیپ چیٹ اس مقصد کے لیے زیادہ محفوظ تصور ہوتا ہے جہاں کوئی پیغام پڑھنے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔
آج اسنیپ چیٹ پر ان کے بیس لاکھ سے زائد جب کہ انسٹاگرام پر دو لاکھ فالورز ہیں۔
گوچی کی ریاض میں واقع بوتیک کی سینئر سیلز وومن لولا محمد نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ جب ان کی کمپنی نے ریاض میں بوتیک کھولی تو زیاد کو بلانا نہیں بھولے۔
انہوں نے بتایا کہ زیاد کو بلانا اس لیے اہم تھا کہ اگر کسی لباس کی تصویر زیاد پہن کر لگاتے ہیں تو وہ فوراً بکنا شروع ہو جاتا ہے۔ بقول ان کے زیاد کو سعودی عرب میں عمر رسیدہ اور نوجوان ہر عمر کی خواتین دیکھتی ہیں۔
پراڈا کمپنی کے ایک سیلز ایسوسی ایٹ نے بتایا کہ وہ نمبر ون ہیں۔اگرچہ دوسرے مرد ماڈل بھی ان کے قدموں پر چلنا شروع کر چکے ہیں لیکن وہ ابھی بھی بہت مقبول ہیں۔
گوچی کی لولا محمد نے بتایا کہ انہیں ایک ماڈل کے ساتھ ساتھ ایک آرٹسٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے ان کے بارے میں برا نہیں سوچتے۔
اس رپورٹ میں مواد خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لیا گیا ہے۔