امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جاری کر دی ہے۔ سال 2021ء میں انسانی حقوق کا احاطہ کرتی رپورٹ میں پاکستان سے متعلق بہتر صفحات پر مبنی چیپٹر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تصویر پیش کی گئی ہے۔
منگل کو جاری رپورٹ کے اجرا کے موقع پر وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن بھی موجود تھے جنہوں نے کہا کہ وہ دوسری مرتبہ اس سالانہ رپورٹ کے اجرا کی تقریب کا حصہ ہیں، کیونکہ انسانی حقوق امریکی خارجہ پالیسی کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے کئی حصوں میں متواتر کئی برسوں سے جمہوریت، آئین کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے احترام کے ضمن میں تنزلی دیکھی گئی ہے۔ ان کے بقول، جب گزشتہ سال میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق رپورٹ جاری کی جا رہی ہے، حقوق سےمتعلق تنزلی کا یہ عمل جاری ہے۔
اس ضمن میں وزیر خارجہ نے روس کی جاری جارحیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ واضح شواہد موصول ہو رہے ہیں جن میں روس یوکرین کے اندر سفاکی کا مرتکب ہو رہا ہے؛ نعشین سڑکوں پر دیکھی جا رہی ہیں اور عام شہریوں کی املاک تباہ ہو گئی ہے۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں تقریباً 200 ممالک کے اندر انسانی حقوق کی صورتحال بیان کی گئی ہے اور جو ریکارڈ دیا گیا ہے وہ بہت چانج پڑتال کے بعد شامل کیا گیا ہے۔ ان کے بقول، امریکہ خود پر بھی انہی معیارات کا اطلاق کرتا ہے جو وہ باقی دنیا میں انسانی جمہوری حقوق کے احترام کے لیے دیکھنا چاہتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے اندر بھی انسانی حقوق کے حوالے سے خدشات اور کوتاہیاں پائی جاتی ہیں۔ انہی معیارات کے تحت تمام ملکوں میں جاری پریکٹسز کا جائزہ لیا گیا ہے بھلے وہ امریکہ کے دوست ممالک ہوں یا ان کے ساتھ امریکہ کے اختلافات پائے جاتے ہوں۔
وزیرخارجہ اینٹینی بلنکن نے کہا کہ انسانی حقوق کے چار ضابطے عالمگیر ہیں جن میں ہر رنگ نسل اور سوچ کے لوگ اس ضابطوں کے مطابق ان حقوق سے استفادے کے حقدار ہیں۔ بھلے ان کا عقیدہ کوئی بھی ہے، ان کی پسند نا پسند کچھ بھی ہو۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں کئی حکومتیں غلط دعویٰ کرتی ہیں کہ انسانی حقوق کے معیار کا تعین مقامی حالات کے مطابق ہونا چاہیے۔ ان کے بقول، کیا حسن اتفاق ہے کہ ایسی ہی حکومتوں میں سے کئی حکومتیں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہیں۔
محکمہ خارجہ کی سال 2021ء کی سالانہ انسانی حقوق رپورٹ میں پاکستان سے متعلق بھی 72 صفحات پر مبنی ایک باب شامل ہے جس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے اندر فوج، پیرا ملٹری اور انٹیلی جنس کے ادارے جو اصولی طور پر سویلین اداروں کو جوابدہ ہیں، وہ سویلین کی نگرانی کے بغیر اپنا کام انجام دیتے ہیں اور وہ مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق متعدد خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے اندر انسانی حقوق کے بڑے مسائل میں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کا حکومت اور یا اس کے ایجنٹوں کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل، ایذا رسانی، سخت جان لیوا قیدو بند کی صعوبتیں، انتقامی گرفتاریاں، سیاسی بنیادوں پر قید میں رکھنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاستی ادارے دیگر ممالک کے اندر موجود اپنے شہریوں کے اغوا، قتل اور تشدد جیسے واقعات کا ارتکاب کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔
محکمہ خارجہ کی اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان کے اندر غیر قانونی عسکری مسلح گروپوں بشمول طالبان کی حمایت کی گئی، بچوں کو جنگجو بنایا گیا اور آزادی اظہار اور میڈیا پر قدغنیں لگائی گئیں۔ صحافیوں کے خلاف تشدد روا رکھا گیا۔ انہیں بلا جواز قید میں رکھا گیا یا ان کو غائب کر دیا گیا۔ سنسر شپ اور ہتک عزت کے مجرمانہ قوانین بنائے گئے۔
رپورٹ کے مطابق سال 2021ء میں انٹرنیٹ پر کئی ویب سائٹس کو بلاک کر کےانٹرنیٹ کی آزادی کو بھی مجروح کیا گیا۔ لوگوں کے جمع ہونے کے حق کی خلاف ورزی کی گئی اور کئی مذہبی آزادیاں بھی'' کمپرومائز'' ہوئیں۔
سالانہ انسانی حقوق رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اندر مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ہم جنس پرست گروپوں پر بھی زمین تنگ کی گئی اور بچوں سے مشقت کی بدترین شکل سامنے آئی۔
رپورٹ میں پاکستان کے چیپٹر کے شروع میں ہی بتایا گیا کہ ملک کے اندر(سابق) وزیراعظم عمران خان جو کھیل سے سیاست میں وارد ہوئے تھے، اور رپورٹ میں غیر جانبدار مندوبین کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہ 2018ء کے ان انتخابات کے بعد اقتدار میں آئے جن میں الیکشن کمشن کا نتائج دینے کا نظام (آر ٹی ایس سسٹم) بیٹھ گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابلق پاکستان کی سیاسی جماعتیں ان انتخابات میں فوج کی مداخلت پر تشویش کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
پاکستان کی طرف سے رپورٹ پر کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا اور یہ رپورٹ ایسے وقت میں آئی ہے جب 2021ء میں حکمران جماعت تحریک انصاف کی حکومت تھی جو گزشتہ ہفتے عدم اعتماد کے ووٹ کے نتیجے میں گھر بھیج دی گئی ہے اور مسلم لیگ نواز کی قیادت والی نئی اتحادی حکومت تشکیل پا رہی ہے۔ ساتھ ہی، پاکستان کے فوج کے ترجمان ادرے آئی ایس پی آر کی طرف سے بھی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔