اسپیس ایکس نے خلاکےلیےارب پتی افراد کی چارٹرڈ پرواز کے بعد محض دو دن سے بھی کم مدت میں چار خلابازوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچانے کے لیے اپنا راکٹ روانہ کر دیا ہے۔
اس پرواز کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ خلانوردوں میں پہلی بار ایک سیاہ فام خاتون کو بھی شامل کیا گیا ہے جو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ایک طویل عرصہ گزاریں گی۔ان کا نام سمینتھا کرسٹوفوریٹی ہے۔ یہ پرواز بدھ کی رات بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچے گی۔اس دوران خلابازوں کو راکٹ کے کیپسول میں 16 گھنٹے گزارنے ہوں گے۔
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن بھیجا جانے والا یہ پہلا ایسا خلائی عملہ ہے جس میں مردوں اور خواتین کی تعداد مساوی ہے۔
ناسا کے اسپیس آپریشنز مشن کی سربراہ کیتھی لویڈرزنے کہا ہے کہ میرا خیال ہے کہ یہ ایک بہت ہی متنوع پرواز ہے۔ ایسا خلائی عملہ بہت ہی طویل مدت کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔
اس سے قبل دو سیاہ فام خواتین بین الاقوامی خلائی اسٹیشن جا چکی ہیں، لیکن وہاں ان کا قیام مختصر دورانیئے کا تھا۔ حالیہ برسوں میں ناسا نے ایک سیاہ فام خاتون جیسیکا واٹکنز کو، جو ایک ماہر ارضیات ہیں، چاند پر اترنے کے مشن کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ وہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں طویل قیام کے لیے سمینتھا کرسٹوفوریٹی کو بھیجے جانے پر خوش ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ناسا اور ملک دونوں کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اسپیس ایکس نے محض دو سال کے عرصے میں ناسا کے لیے پانچ اور پرائیویٹ ٹور کے لیے دو خلائی پروازوں کا بندوبست کیا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں ایلون مسک کی یہ کمپنی بہت مصروف رہی ہے اور حال ہی میں یہ تین کاروباری افراد کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچانے اور وہاں سے واپس زمین پر لانے کا کام بخوبی سرانجام دے چکی ہے۔
خلابازوں کے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچنے کے ایک ہفتے کے بعد وہاں پہلے سے موجود چار خلاباز، جن میں سے تین امریکی اور ایک جرمن ہے، اسپیس ایکس کے کیپسول کے ذریعے زمین پر لوٹ آئیں گے جب کہ وہاں موجود تین روسی خلاباز اپنا قیام جاری رکھیں گے۔
اسپیس ایکس اور ناسا کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ وہ سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔پیر کے روز مکمل ہونے والے چارٹرڈ خلائی مشن میں کسی بڑے مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا ماسوائے اس کے کہ تیز ہواؤں کی وجہ سے پرواز میں ایک ہفتے کی تاخیر ہوئی۔
خلائی سفر کے لیے خلاباز اسپیس ایکس کے کیپسول میں سوار ہوتے ہیں جو مکمل طور پر خودکار ہیں۔ انہیں ہر سائز کے خلابازوں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اور وہ خلابازوں کو ان کی جسامت کے مطابق سہولت مہیا کرتے ہیں۔ ناسا اور یورپ کی خلائی ایجنسی دونوں اب یہ زور دے رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ خواتین خلابازوں کو خلائی سفر پر بھیجا جائے۔
طویل عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ خلائی سفر صرف تربیت یافتہ خلا باز ہی کر سکتے ہیں اور کسی عام شخص کا خلا میں جانا بعید از امکان ہے۔ لیکن اب صورت حال بدل رہی ہے اور زمین کے بالائی مدار تک عام افراد کے جانے کے بعد اب حال ہی تین ارب پتی اپنے خرچ پر بین الاقوامی اسٹیشن کی سیر کر کے واپس آئے ہیں۔ اس سے پہلے روس کا ایک فلم ساز بھی شوٹنگ کے لیے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن جا چکا ہے۔
ناسا نے بتایا کہ کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن جانے والے تینوں ارب پتی شخصیات نے فی کس پانچ کروڑ 50 لاکھ ڈالر معاوضہ ادا کیا تھا۔ جب کہ ایک سابق خلاباز نے ان کی اس پرائیویٹ مہم جوئی کا بندوبست کیا تھا۔
ناسا کے فلائٹ ڈائریکٹر زیب سکوول کہتے ہیں کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کوئی تفریح گاہ نہیں ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی تجربہ گاہ ہے اور وہاں جانے والے اس چیز کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے اوراس کے مقصد سے آگاہ تھے۔
ناسا نے اپنی خلائی شٹلز ریٹائر کرنے کے بعد خلابازوں کی خلائی مہمات کے لیے بوئنگ کی خدمات بھی حاصل کیں ہیں۔ 2019 میں ان کی ایک تجرباتی پرواز میں رکاوٹ پیش آئی تھی۔ اس کے مسائل حل کرنے کے بعد اب بوئنگ اگلے مہینے ایک اور تجربہ کرنے جا رہا ہے۔