امریکہ کا ایک خلاباز ایسے وقت روسی راکٹ کے ذریعے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے واپس زمین پر لوٹ آیا ہے جب کہ یوکرین تنازع کی وجہ سے امریکہ اور روس کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور امریکہ نے روس کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کے خلا باز مارک وینڈ ہے، زمین کے مدار میں گردش کرنے والے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر 355 دن گزارنے کے بعد روسی راکٹ کیپسول سویوز میں سوار ہو کر بدھ کے روز قازقستان میں قائم زمینی خلائی مرکز میں اترے۔ واپسی کی اس پرواز میں دو روسی خلاباز بھی ان کے ہمسفر تھے۔
خلائی اسٹیشن پر 355 دن کا قیام کسی بھی امریکی خلاباز کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس سے قبل یہ ریکارڈ امریکی خلاباز سکاٹ کیلی کے پاس تھا جنہوں نے 2016 کے ایک خلائی مشن کے دوران بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر 340 دن تک قیام کیا تھا۔ وہ اب خلانوردی سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔
تاہم خلا میں طویل مدت گزارنے کا ریکارڈ ابھی تک روس کے پاس ہے جس کے ایک خلاباز ویلری پولیاکوف نے خلائی اسٹیشن میر پر 437 دن اور 18 گھنٹے گزارے تھے۔ یہ ریکارڈ انہوں نے اپنے دوسرے خلائی سفر کے دوران 1994 ۔ 1995 میں قائم کیا تھا۔
قازقستان میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے راکٹ کیپسول سویوز اترنے کے بعد ، سب سے پہلے دو روسی خلاباز پیوٹرڈبورف اور اینٹن شکاپلروف باہر آئے، اور سویوز سے باہر نکلنے والے تیسرے اور آخری خلاباز وینڈ ہے تھے۔ انہوں نے ماسک اور ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ زمین پر اپنی آمد پر ان کا پہلا جملہ تھا، باہر کا منظر خوبصورت ہے۔
یوکرین پر امریکہ اور روس کی کشیدگی کے باوجود وینڈہے کی واپسی معمول کے مطابق تھی۔ کیپسول اترنے کے مقام پر ناسا کے عملے کے ارکان اور ڈاکٹر موجود تھے اور وہ خلا باز کے ساتھ فوری طور پر بوسٹن روانگی کے لیے تیار تھے۔
24 فروری کو یوکرین پر روسی حملے کے بعد خلابازوں نے اپنی معمول کی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ تاہم لڑائی کے موضوع پر بات چیت سے گریز کیا۔
خلائی اسٹیشن پر طویل قیام کے دوران مختصر مدت کے لیے روس کا ایک فلم ساز بھی شوٹنگ کے لیے وہاں آیا جس کی وجہ سے روسی خلابازوں کی واپسی کی تاریخ کو آگے بڑھانا پڑا۔
وینڈہے کا کہنا ہے کہ خلا میں طویل قیام کو ممکن بنانے کے لیے مراقبے کی مشق نے ان کی مدد کی۔ وہ روزانہ مراقبے کی مشق کرتے تھے۔ وینڈہے چار سال قبل بھی کئی مہینے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر گزار چکے ہیں۔ تاہم، ان کے موجودہ قیام کی مدت اس سے قبل کی خلائی مہم کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔
وینڈہے نے ناسا کے ساتھ اپنی ایک حالیہ ویڈیو میں کہا تھا کہ میں تقریباً ایک سال سے دن رات 24 گھنٹے اور ساتوں دن ایک کمرے کے اندر رہ کر کام کر رہا ہوں۔اب میں باہر نکلنے کا منتظر ہوں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ باہر کا موسم کیسا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں اپنے اور اپنی شریک حیات جولی کے لیے کافی کا ایک کپ بنانے اور ایواکاڈو کی چٹنی کے ساتھ چپس کھانے کا منتظر ہوں۔
دو روسی اور ایک امریکی خلاباز کی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے واپسی کے بعد اب وہاں تین روسی ، تین امریکی اور ایک جرمن خلاباز باقی رہ گئے ہیں۔ روسی خلاباز دو ہفتے قبل وہاں پہنچے تھے جب کہ امریکی اور جرمن خلاباز نومبر سے وہاں موجود ہیں۔ توقع ہے کہ وہ چاروں تین ہفتے کے بعد اسپس ایکس کی ایک پرواز سے واپس زمین پر لوٹ آئیں گے جب کہ اسپس ایکس کی اسی پرواز سے تین امیر کاروباری شخصیات ایک پرانے خلاباز کے ساتھ ایک ہفتے کے تفریحی دورے پر اسپیس اسٹیشن پہنچیں گی۔
اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک نے خلابازوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچانے کا ناسا کا پروگرام 2020 میں ختم ہونے کے 9 سال کے بعد خلا کے لیے اپنی راکٹ سروس شروع کی ہے۔ اس سے قبل امریکی خلاباز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر جانے اور وہاں سے واپسی کے لیے روسی راکٹ استعمال کرتے تھے جس کے لیے امریکہ لاکھوں ڈالر ادا کر رہا تھا۔
اسپیس ایکس کی خلائی سروس صرف سائنسی خلائی مہمات کے لیے ہی وقف نہیں ہے بلکہ وہ تفریح کی غرض سے خلا میں جانے کے خواہش مند عام افراد کو بھی یہ سہولت فراہم کر رہا ہے۔