جب سارا پاکستان عید منانے میں مصروف تھا تو معروف گلوکار شہزاد رائے نے اپنا نیا گانا 'واجہ' ریلیز کیا جس کے ریلیز ہوتے ہی سوشل میڈیا پر اس پر بحث اور تبصرے ہونے لگے۔
اس گانے میں شہزاد رائے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی مشہور گلوکارہ رئیسہ رئیسانی، لوک گلوکاروں واسو خان اور نعیم دلپل بھی پرفارم کررہے ہیں جب کہ شانی حیدر نے اس گانے کی موسیقی ترتیب دی ہے۔
گانے کی کمپوزیشن میں ان سازوں کاکثرت سے استعمال کیا گیا ہے جو بلوچی موسیقی میں استعمال ہوتے ہیں جیسے بینجو، سورز اور دمبورہ۔
گانے کی ویڈیو بلوچستان کے ان علاقوں میں فلمایا گیا ہے جن کی خوب صورتی کا عمومی طور پر تذکرہ کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس میں بلوچستان کے ثقافتی لباس پہنے بچوں کو رقص کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
واجہ کے ذریعے کس کو مخاطب کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور کیوں؟
شہزاد رائے 1990 کی دہائی سے موسیقی سے وابستہ ہیں۔ وہ اس گانے میں اپنے پروگرام 'واسو اور میں' کے مرکزی کرداد واسو کے ساتھ ایک بار پھر یکجا ہوئے جب کہ ان کا ساتھ دے رہے ہیں بلوچستان کے مقبول فن کار رئیسہ رئیسانی اور نعیم دلپل۔
گانے واجہ میں بلوچستان کی خوب صورتی اور وہاں ترقی کی تشہیر تو ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس میں بلوچی زبان اور بلوچ ثقافت کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بلوچی زبان میں 'واجہ' بڑے یا بزرگوں کے لیے ویسے ہی استعمال کیا جاتا ہے جیسے پنجابی زبان میں 'خواجہ’۔
اس گانے میں بھی اس لفظ کو احتراماً بڑوں کو ہی مخاطب کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنا کردار ادا کریں اور پاکستان کے اس محروم خطےکو ایک بار پھر قومی دھارے کا حصہ بنائیں۔
سوشل میڈیا پر صارفین کا ملا جلا ردِعمل
'واجہ' کے ریلیز ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بھی تبصرے جاری ہیں جس میں تعریف کے ساتھ ساتھ تنقید بھی ہو رہی ہے۔
بعض سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ اس گانے میں بلوچستان کی مرکز سے ناراضگی کا ذکر آنا اگر ایک مثبت پہلو ہے تو دیگر کا خیال تھا کہ اس میں تصویر کا صرف ایک ہی رخ دکھایا گیا ہے۔
تعریف کرنے والوں میں ایک خاتون صارف نے شہزاد رائے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ اس کوشش سے بلوچستان کےلوگوں سےجڑے منفی خیالات کا خاتمہ ہوگا۔
ایک اور صارف کے خیال میں اس گانے میں موجود تمام گلوکاروں نے بہترین انداز میں بلوچستان کی نمائندگی کی۔ انہوں نے شہزاد رائے سمیت تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے ایک بہترین کوشش قرار دیا۔
ایک صارف کے بقول بلوچستان پر گانا بنانا ایک اچھا قدم ہے لیکن اس صوبے کو اس سے بھی کہیں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ مقامی سردار اور وفاقی حکومت اسے وہ توجہ نہیں دے رہے۔
سوشل میڈیا پر تبصروں میں کئی لوگوں نے خیال ظاہر کیا کہ اس طرح کے گانوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
طارق حسنی نامی صارف کے بقول جس طرح گانوں سے کشمیر پاکستان نہیں بن سکا، اسی طرح بلوچستان کے مسئلے بھی گانوں سے ٹھیک نہیں ہوں گے۔
ٹوئٹر پر واجہ احمد بلوچ نامی صارف کو 'واجہ' گانا اتنا برا لگا کہ انہوں نے نعیم دلپل کا یوٹیوب چینل ہی چھوڑ دیا۔
پنجرش کے نام سے سوشل میڈیا پر موجود ایک صارف کا کہنا تھا کہ اس گانے کی ویڈیوبہت اعلی ہے۔
انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ گانے کے بول 'یہ میرا پاکستان ہے، یہ تیرا بلوچستان ہے' صوبے کی موجودہ صورتِ حال کی عکاسی کرتا ہے۔
ان کے مطابق اس گانے کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سچ کو کس طرح چھپایا جاسکتا ہے۔
صحافی و سماجی کارکن بھی اس گیت سے خوش نہیں
معروف صحافی حامد میر نے گانے پرسوشل میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس گیت میں جہاں ناراضگی ختم کرنے کا اشارہ دیا گیا ہے، وہیں بلوچستان سے لاپتا ہونے والے افراد سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے اور 'اینڈ اینفورسڈ ڈس اپیئرنس' کا معاملہ حل کرکے ناراض بلوچوں کو آرام سے منایا جاسکتا ہے۔
آخر میں بات تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ سماجی کارکن ندا کرمانی کی، جنہوں نے اس گانے کی ریلیز کے بعد سوشل میڈیا پوسٹ میں شہزاد رائے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ بلوچستان سے واقعی محبت کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھائیں۔
گانے نے ریلیز ہوتے ہی سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی تھی۔
اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے دو دن ہی میں اس گانے کو صرف یوٹیوب پر 16 لاکھ بار دیکھا جا چکا ہے۔