پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کے اہم راہنماوں کے ہمراہ مسلم لیگ نواز کے سپریم لیڈر نواز شریف کے ساتھ تفصیلی ملاقات ہوئی ہے جس میں اس بارے میں اتفاق رائے پایا گیا کہ ملک کے اندر تین اپریل کے بعد سے اب تک جہاں جہاں آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے، اس کا احاطہ کیا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں سے قانون کے تحت نمٹا جائے۔
وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے، جو پارٹی کی قیادت کے ہمراہ لندن میں ہیں، ملاقات کے بعد اجلاس کی تفصیل تو نہیں بتائی البتہ اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر بتایا ہے کہ اس اجلاس کا اگلا دور جمعرات کو ہو گا جس کے بعد اتحادی جماعتوں کی حمایت سے یہاں ہونے والے فیصلوں کا اعلان کیا جائے گا۔
مریم اورنگزیب نے بتایا ہے کہ بدھ کو لندن میں ہونے والے پارٹی کے اہم مشاورتی اجلاس میں آئینی، معاشی اور انتظامی بحرانوں پر سابق وزیراعظم اور پارٹی کے قائد میاں نواز شریف کو بریفنگ دی گئی۔
وزیراطلاعات کے مطابق اجلاس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پر بھی تفصیلی غوروخوض کیا گیا اوراتفاق رائے پایا گیا کہ آئین شکنی کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے۔
انھوں نے بتایا کہ آئین شکن عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لیے مختلف تجاویز پرمشاورت ہوئی قائد محمد نوازشریف کی زیرصدارت حتمی فیصلوں کے لیے جمعرات کو پھر اجلاس ہوگا۔ملک اور عوام کو بحران سے نکالنے کے لیے حکمت عملی کی منظوری دی جائے گی تمام فیصلوں کا اعلان اتحادی جماعتوں کی تائید و حمایت سے کیا جائے گا۔
مریم اورنگزیب نے مزید بتایا کہ جمعرات کو بھی اجلاس کی دوسری نشست جاری رہے گی جس میں عوام کو بحران سے نکالنے کے لیے حکمت عملی کی منظوری دی جائےگی۔
تحریک انصاف کے راہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے مریم اورنگزیب کی طرف سے کی گئی ٹویٹس کے جواب میں کہا ہے کہ ایسی بریفنگ تو نون لیگ کے بیانات کی صورت روز دی جاتی ہے۔
’ آپ کی بریفنگ سے لگتا ہے کہ میاں صاحب لندن میں کسی غار میں چھپے ہوئے ہیں جہاں انٹرنیٹ، ٹیلی ویژن،,اخبار جیسی کوئی سہولت دستیاب نہیں ورنہ یہ باتیں جن کو آپ بریفنگ کہہ رہی ہیں روزانہ نون لیگ کے بیانات کی صورت میں آتی ہیں اوران جھوٹوں پر روزانہ آپ کو کمنٹس سیکشن بند کرناپڑتا ہے۔"
ادھر وائس آف امریکہ کی ایک ٹوئٹر سپیس میں تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف ملک میں معاشی مشکلات اور عمران خان کے سیاسی بیانیے کو دوسروں سے غالباً بہتر سمجھ رہے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ وہ پارٹی کے اجلاس میں جلد انتخابات پر غور کر رہے ہیں۔ تاہم بعض تجزیہ کاروں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ اس پہلو پر بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے اور ان کی صاحبزادی کے خلاف سنائی جانے والی سزاوں کا مستقبل کیا ہے۔
لندن اجلاس پر تجزیہ کاروں کی رائے:
عمران حکومت کے خاتمے کے فورا بعد مسلم لیگ کے سینئر راہنما اور سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ میاں نواز شریف تو چاہتے ہیں کہ کل الیکشن ہو جائیں لیکن الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیاں کروانی ہیں اور دوسری طرف سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات چاہتی ہیں۔
سیاسی اور بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ تحریک انصاف کے راہنما عمران خان مقبولیت کی جس لہر پر اس وقت سوار ہیں، وہ سب کے لیے غیر متوقع تھی۔ ان کے بقول عمران خان اس وقت اتحادی حکومت کے لیے بالعموم اور مسلم لیگ نواز کے لیے بالخصوص ڈراونا خواب بن کر سامنے آئے ہیں۔ ان حالات میں ہو سکتا ہے کہ نواز شریف لندن میں اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ گفتگو میں آگے کی راہ تلاش کریں اور سوچیں کہ سیاسی قیمت وہ کیوں چکائیں؟
ہما بقائی کہتی ہیں کہ جون میں بجٹ آنا ہے، مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں جبکہ دوسری جانب سعودی عرب ہو، متحدہ عرب امارات یا امریکہ، کہیں سے کوئی بڑی کمٹمنٹ سامنے نہیں آ رہی۔ یہ حالات میاں نواز شریف کے لیے پریشانی کا باعث ہو سکتے ہیں۔
مسلم لیگ نواز کے سینئر راہنما اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ ایک انٹرویومیں کہا ہے کہ ان کی پارٹی کو کسی نے ’دھکہ‘ نہیں دیا وہ سوچ کر حکومت میں گئے ہیں۔ ان کے بقول یہ رسک لینا ضروری تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انتخابات نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل کرائے جا سکتے ہیں۔
راو خالد سینئر صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمران خان نے جس طرح کا بیانیہ بنایا ہے، اس سے اسٹیبلشمنٹ پر بھی ایک دباو آیا ہے اور وہ لگتا ہے کہ واقعی نیوٹرل ہو گئے ہیں۔ اسی طرح اتحادی ممالک سے مدد نہیں آ رہی۔ عمران خان کا الیکشن کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی الیکشن کی بات کر رہی ہیں ۔ ان حالات کا تجزیہ، راو خالد کے بقول، میاں نواز شریف بہتر انداز میں کر رہے ہیں۔
سینئر صحافی کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں بیانیہ بہت اہم ہو گیا ہے۔ اسی طرح پالیسی دینا بہت ضروری ہے جبکہ وزیراعظم شہباز شریف جس طرح حکومت چلا رہے ہیں، اس سے ایک ’ لارڈ مئیر‘ کے اقدامات کا گمان ہوتا ہے۔ ان حالات میں غالب امکان یہی ہے کہ لندن اجلاس میں میاں نواز شریف جلد انتخابات پر توجہ دیں گے۔
مظہر برلاس، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں۔ لندن اجلاس میں، ان کے بقول، دو تین اشوز بہت اہم ہو سکتے ہیں جن پر بات ہو۔ ایک تو یہ کہ میاں نواز شریف کی سزا کیسے ختم ہو اور ان کو کیسے واپس بلایا جا سکتا ہے۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز کی سزا اور نا اہلی کیسے ختم ہو۔ ان کے خیال میں نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ اتحادیوں نے مسلم لیگ نواز کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ زرداری صاحب ہوں یا مولانا صاحب، سب وزارتیں لے کر ایک طرف ہو گئے ہیں اور سارا دباو نواز لیگ پر ہے۔
مظہر برلاس کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کے سپریم راہنما میاں نواز شریف کے ذہن میں یہ بات ہو سکتی ہے کہ اس سیٹ اپ میں ان کو یا ان کی بیٹی کو کچھ خاص نہیں مل رہا۔ لہٰذا وہ انتخابات پر ہی زور دے سکتے ہیں۔