رسائی کے لنکس

شہباز شریف سمیت لیگی رہنماؤں کی لندن آمد: 'یہ تاثر مل رہا ہے کہ اصل وزیرِ اعظم نواز شریف ہی ہیں'


وزیرِ اعظم شہباز شریف لندن میں پارٹی قائد نواز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف لندن میں پارٹی قائد نواز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی ہدایت پر وزیرِ اعظم شہباز شریف سمیت پارٹی کے دیگر مرکزی رہنما بدھ کو لندن پہنچ چکے ہیں جہاں پارٹی اجلاس کے دوران مشاورت اور بڑے فیصلے متوقع ہیں۔

نواز شریف کی سربراہی میں ہونے والے اس اجلاس سے متعلق قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اس اجلاس کے بعد کوئی بڑی خبر آنے والی ہے۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ لیگی رہنماؤں کی ملاقات میں آئندہ انتخابات، پنجاب میں حمزہ شہباز کی کابینہ اور پاور شیئرنگ سے متعلق اہم فیصلے ہو سکتے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان اپنی حکومت ختم کیے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جب کہ ملک ایک مشکل معاشی صورت حال سے دوچار ہے ، اس دورے کو بہت اہمیت دی جارہی ہے ۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں رواں برس کے اختتام تک انتخابات کرانے کے حوالے سے بات چیت کی جاسکتی ہے کیوں کہ مشکل معاشی صورتِ حال اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ معیشت کی ابتر صورتِ حال کی وجہ سے روپے کی قدر میں روز بروز کمی آ رہی ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کے حصول کے لیے حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات سمیت کئی چیزیں مہنگی کرنی پڑ سکتی ہیں جو آئندہ الیکشن کے تناظر میں مشکل فیصلے ہوں گے۔

لندن میں مقیم مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ مخلوط حکومت کی میٹنگ میں نواز شریف شریک تھے، لہذٰا یہ ضروری تھا کہ شہباز شریف لندن آ کر ان سے مشورہ کرتے۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن واضح کر چکا ہے کہ اکتوبر سے پہلے الیکشن نہیں ہو سکتے۔ الیکشن کرانے کا دوسرا آپشن اگست 2023 ہے۔ لیکن اس سے متعلق فیصلہ اتحادیوں کے ساتھ مشاورت سے کریں گے۔

سبسڈیز کے حوالے سے اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا کہ سابق حکومت اس مد میں کوئی رقم مختص کر کے نہیں گئی۔ یہ 300 ارب روپےکا معاملہ ہے اور یہ بوچھ اگر عوام پر ڈالا تو مہنگائی آسمان پر چلی جائے گی۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف برطانوی ایئر لائن کے ذریعے کابینہ کے ارکان کے ہمراہ منگل کی شب لندن روانہ ہوئے۔ان کے وفد میں احسن اقبال، مفتاح اسماعیل، ایاز صادق، مریم اورنگزیب، سعد رفیق، خواجہ آصف، خرم دستگیر،رانا ثنا اللہ، ملک احمد خان اور عطا اللہ تارڑ شامل تھے۔

سینئر تجزیہ کار اور اینکر پرسن طلعت حسین نےوائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشاورت کرنے سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن اس وقت شہباز شریف کی حکومت جو کر رہی ہے وہ کسی صورت درست دکھائی نہیں دے رہا۔

طلعت حسین نے کہا کہ اگر نواز شریف نے ملک چلانا ہے تو انہیں پاکستان آنا چاہیے۔ اسٰحاق ڈار وزارت خزانہ چلانا چاہتے ہیں تو انہیں بھی پاکستان آنا چاہیے۔ لندن میں بیٹھ کر حکومت نہیں چلائی جاسکتی۔ اسی طرح دو وزرائے اعظم نہیں ہوسکتے۔

ملک کے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سب کو ملک کی معاشی صورتِ حال کا اندازہ تھا اور اس بارے میں بہت سے معاملات حل کرنے چاہیے تھے۔ موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے بات کرکے آئی ہے اوراب ان کی شرائط کو ماننا ہوگا۔ اسحٰاق ڈار لندن میں بیٹھے ہیں اور وہ آئی ایم ایف کی باتوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں ایک برا تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ معاشی معاملات حل کیسے ہوں گے۔

'یہ تاثر مل رہا ہے کہ اصل وزیرِ اعظم نواز شریف ہی ہیں'

وزیرِ اعظم شہباز شریف کے کابینہ کے ارکان کے ساتھ لندن جانے کے حوالے سے تجزیہ کار اور کالم نویس سلمان عابد کہتے ہیں کہ اس سے یہ تاثر سامنے آیا ہے کہ اصل وزیرِ اعظم اب بھی نواز شریف ہی ہیں جو لندن میں بیٹھ کر تمام معاملات کنٹرول کر رہے ہیں اور شہباز شریف فیصلے کرنے میں آزاد نہیں ہیں۔

تحریکِ انصاف کی حکومت کے تحریکِ عدم اعتمادکے ذریعے خاتمے اور نئی اتحادی حکومت کے قیام کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی اس وقت بحث ہو رہی ہے کہ حکومت کی تبدیلی کا اصل فائدہ مسلم لیگ کو ہوا ہے یا کسی اور نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔

ان کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے اندر ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کی سوچ ہے کہ اس موقع پر حکومت نہیں لینی چاہیے تھی۔ ان میں بڑا نام سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کا ہے۔ان کا خیال تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو حکومت کی طرف نہیں بلکہ نئے انتخاب کی طرف جانا چاہیے تھا اور اب سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ چھ ماہ میں انتخاب کرانا ہوگا۔

کیا نئے انتخابات کا فوری اعلان عمران خان کی کامیابی ہو گی؟

قبل از وقت الیکشن کی صورت میں عمران خان کے بیانیے کی کامیابی پر طلعت حسین کا کہنا تھا کہ بیانیے کی حد تک یہ جیت سمجھی جا سکتی ہے۔

اُن کے بقول، دیکھا جائے تو سابق حکومت کے پہلے سال میں ہی مولانا فضل الرحمٰن نے نئے انتخابات کے لیے دھرنا دے دیا تھا۔ آصف زرداری نے قبل از وقت الیکشن کا کہا تھا۔ نواز شریف نے بار بار جلد انتخابات کا مطالبہ کیا۔ صرف شہباز شریف کو شوق تھا وزیراعظم بننے کا۔ شہباز شریف کا زور تھا کہ میں نے وزیرِ اعظم بننا ہے اور یہاں بھی فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ تین ماہ کا وزیرِ اعظم بننا ہے یا وہ ایک برس تک وزیرِ اعظم ہوں گے۔

تحریک انصاف کے جلسوں کا ذکر کرتے ہوئے طلعت حسین کا کہنا تھا کہ اس وقت عمران خان کے بیانیے کی جیت تو ہوسکتی ہے لیکن پنڈال بھرنے سے الیکشن نہیں جیتا جاسکتا۔

جہانگیر ترین اور علیم خان کے تحریک انصاف کے مخالفین سے ملنے پر انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پنجاب میں جس بنیاد پر الیکشن جیتا تھا وہ تمام پلرز ان سے چھن چکے ہیں۔ اس وقت انتخاب ہوگا تو عمران خان کو سمجھ آجائےگی کہ سیاسی رہنما کی شہرت اور الیکشن جیتنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔

سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس میں جیتنے یا ہارنے والی کوئی خاص بات نہیں ہے کیوں کہ آپ نے ایک سال بعد تو انتخابات میں جانا ہی ہے۔ اس لیے اگر چھ ماہ سے ایک سال کے درمیانی مدت میں انتخابات کرا دیے جائیں تو کسی کی ہار جیت کا مسئلہ نہیں ہوگا۔

تجزیہ کار سلمان عابد کہتے ہیں کہ اس وقت حکومت کو مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔شہباز شریف کو ڈیلیور بھی کرنا ہے اور ساتھ ہی عمران خان کے بیانیے کا مقابلہ بھی کرنا ہے۔ عمران خان اپنا بیانیہ بنا چکے۔ کوئی اسے غلط سمجھے یا درست، لیکن وہ ایک بیانیہ بنا کر اس پر مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) کا اب تک کوئی واضح بیانیہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر الیکشن لڑا جائے۔

سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے عوامی رابطہ مہم شروع کر رکھی ہے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے عوامی رابطہ مہم شروع کر رکھی ہے۔

حکومت کے اتحادی خاموش کیوں؟

اس سوال پر کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں خاموش کیوں ہیں؟ سلمان عابد کا کہنا تھا کہ اس وقت مولانا فضل الرحمٰن، محمود خان اچکزئی، آصف زرداری، ایم کیو ایم سب خاموش ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ پی ایم ایل این اسٹیبلشمنٹ کی چال کے ساتھ ساتھ آصف زرداری کی چال میں تو نہیں آگئی ہے کیوں کہ سب دباؤ صرف مسلم لیگ(ن) پر ہے۔

سلمان عابد کہتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) نے الیکشن پنجاب میں لڑنا ہے اور یہی میدان پی ٹی آئی کا بھی ہے۔ ایسے میں باقی تمام سیاسی جماعتیں خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہیں اور خاموشی سے اگلے الیکشن کا انتظار کر رہی ہیں۔

طلعت حسین کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے انتہائی بے دلی سے وزارتِ خارجہ کا قلمدان لیا ہے، البتہ اس کا اندرونی معاملات سے کچھ خاص تعلق نہیں ہے۔ باقی تمام اہم وزارتیں مسلم لیگ (ن) کے پاس ہیں، جن میں خزانہ، دفاع،اطلاعات اور داخلہ کی وزارتیں شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت اصل لڑائی سندھ، خیبر پختونخوا یا بلوچستان میں نہیں صرف پنجاب میں کامیابی کی ہے۔ جہاں مسلم لیگ (ن) کو تحریکِ انصاف کا سامنا کرنا ہے۔ اتحادیوں نے واضح کیا تھا کہ سیاسی وزن تو اٹھایا جائے گا لیکن حکومتی وزن انہیں خود اٹھانا ہوگا۔ اس وقت وزارتیں اگر آپ کے پاس ہیں تو وزن بھی آپ کو ہی اٹھانا ہوگا۔

آصف زرداری کا بیان: کیا نواز شریف واقعی فوری انتخاب کا سوچ رہے ہیں؟

لندن میں مسلم لیگ کی قیادت کے اجلاس میں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، سلمان شہباز، اسحاق ڈار، رانا ثنا ءاللہ، ایاز صادق، خواجہ آصف،خواجہ سعد رفیق، مریم اورنگزیب اور دیگر شامل ہیں۔
لندن میں مسلم لیگ کی قیادت کے اجلاس میں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، سلمان شہباز، اسحاق ڈار، رانا ثنا ءاللہ، ایاز صادق، خواجہ آصف،خواجہ سعد رفیق، مریم اورنگزیب اور دیگر شامل ہیں۔

ایسے میں پاکستان میں حکمران اتحاد میں شامل سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کے، بشمول وزیراعظم میاں شہباز شریف، چوٹی کے راہنماوں کا وفد اپنی پارٹی کے سپریم لیڈر میاں نواز شریف سے لندن میں ملاقات کر رہا ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوری انتخابات کرانے پر غور ایجنڈے میں اہم ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین اورسابق صدر آصف نے کہا ہے کہ انتخابی اصلاحات سے پہلے عام انتخابات نہیں کرائے جائیں گے۔ ان کے بقول، اس کام میں تین سے چار ماہ لگ سکتے ہیں۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے بتایا کہ وہ یہ بات مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نواز شریف سے مشاورت کے بعد کر رہے ہیں۔

سابق صدر اور اہم اتحادی کے اس بیان کے بعد ان قیاس آرائیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے کہ میاں نواز شریف ملک کے موجودہ سیاسی ماحول میں جب سابق وزیراعظم عمران خان سڑکوں پر ہیں اور مختلف شہروں میں جلسوں کے ذریعے دباو بڑھا رہے ہیں، دوسری طرف مسلم لیگ کی قیادت والی شہباز حکومت مشکل معاشی اور سیاسی صورتحال کے سبب، تجزیہ کاروں کے مطابق، بڑے فیصلے نہیں کر پا رہی، جلد انتخابات کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

عمران حکومت کے خاتمے کے فورا بعد مسلم لیگ کے سینئر راہنما اور سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ میاں نواز شریف تو چاہتے ہیں کہ کل الیکشن ہو جائیں لیکن الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیاں کرانا ہیں اور دوسری طرف سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات چاہتی ہیں۔

سیاسی اور بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ تحریک انصاف کے راہنما عمران خان مقبولیت کی جس لہر پر اس وقت سوار ہیں، وہ سب کے لیے غیر متوقع تھی۔ ان کے بقول، عمران خان اس وقت اتحادی حکومت کے لیے بالعموم اور مسلم لیگ نواز کے لیے بالخصوص ڈراونا خواب بن کر سامنے آئے ہیں۔ ان حالات میں ہو سکتا ہے کہ نواز شریف لندن میں اپنی پارٹی کی اعلی قیادت کے ساتھ گفتگو میں آگے کی راہ تلاش کریں اور سوچیں کہ سیاسی قیمت وہ کیوں چکائیں؟

ہما بقائی کہتی ہیں کہ جون میں بجٹ آنا ہے، مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے، جبکہ دوسری جانب سعودی عرب ہو، متحدہ عرب امارات یا امریکہ، کہیں سے کوئی بڑی کمٹمنٹ سامنے نہیں آ رہی۔ یہ حالات میاں نواز شریف کے لیے پریشانی کا باعث ہو سکتے ہیں۔

مسلم لیگ نواز کے سینئر راہنما اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ ایک انٹرویومیں کہا ہے کہ ان کی پارٹی کو کسی نے ’دھکہ‘ نہیں دیا وہ سوچ کر حکومت میں گئے ہیں۔ ان کے بقول، یہ رسک لینا ضروری تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انتخابات نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل کرائے جا سکتے ہیں۔

راو خالد سینئر صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمران خان نے جس طرح کا بیانیہ بنایا ہے، اس سے اسٹیبلشمنٹ پر بھی ایک دباو آیا ہے اور وہ لگتا ہے کہ واقعی نیوٹرل ہو گئے ہیں۔ اسی طرح اتحادی ممالک سے مدد نہیں آ رہی۔ عمران خان کا الیکشن کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی الیکشن کی بات کر رہی ہیں ۔ ان حالات کا تجزیہ، راو خالد کے بقول، میاں نواز شریف بہتر انداز میں کر رہے ہیں۔

سینئر صحافی کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں بیانیہ بہت اہم ہو گیا ہے۔ اسی طرح پالیسی دینا بہت ضروری ہے جبکہ وزیراعظم شہباز شریف جس طرح حکومت چلا رہے ہیں، اس سے ایک ’ لارڈ میئر‘ کے اقدامات کا گمان ہوتا ہے۔ ان حالات میں غالب امکان یہی ہے کہ لندن اجلاس میں میاں نواز شریف جلد انتخابات پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔

مظہر برلاس، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں۔ لندن اجلاس میں، ان کے بقول، دو تین اشوز بہت اہم ہو سکتے ہیں جن پر بات ہوسکتی ہے۔ ایک تو یہ کہ میاں نواز شریف کی سزا کیسے ختم ہو اور ان کو کیسے واپس بلایا جا سکتا ہے۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز کی سزا اور نا اہلی کیسے ختم ہو۔ ان کے خیال میں نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ اتحادیوں نے مسلم لیگ نواز کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ زرداری صاحب ہوں یا مولانا صاحب، سب وزارتیں لے کر ایک طرف ہو گئے ہیں اور سارا دباو نواز لیگ پر ہے۔

مظہر برلاس کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کے سپریم راہنما میاں نواز شریف کے ذہن میں یہ بات ہو سکتی ہے کہ اس سیٹ اپ میں ان کو یا ان کی بیٹی کو کچھ خاص نہیں مل رہا۔ لہٰذا، وہ انتخابات پر ہی زور دے سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے بدھ کو ایک جلسہ عام سے خطاب میں کہا ہے کہ عمران خان تین برسوں میں جو خرابیاں کر کے گئے ہیں، ان کو ٹھیک کرنے کے لیے دو سال کا وقت چاہیے ہو گا۔

  • 16x9 Image

    اسد حسن

    اسد حسن دو دہائیوں سے ریڈیو براڈ کاسٹنگ اور صحافتی شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ وی او اے اردو کے لئے واشنگٹن ڈی سی میں ڈیجیٹل کانٹینٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG