پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ نومبر میں نئے آرمی چیف کے تقرر سے قبل ہی ملک میں عام انتخابات ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگر نئے آرمی چیف کی تعیناتی شہباز شریف نے کی تو لیفٹننٹ جنرل فیض حمید سمیت سنیارٹی لسٹ میں شامل تمام جنرلز کے ناموں پر غور کیا جائے گا۔
بدھ کو برطانوی نشریاتی ادارے'بی بی سی' کو دیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کے دوران ملک میں نگران حکومت ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت تک نئی حکومت ہی آ چکی ہو۔
اس سوال کے جواب پر کہ کیا سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر ہٹائی گئی؟ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ وزیرِ اعظم کی صوابدید ہے کہ وہ فوج کی جانب سے بھیجے گئے ناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔
وزیر دفاع نے واضح کیا کہ عمران خان اگلے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر اپنی مرضی کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اقتدار کو طول دیں سکیں۔
وزیرِ دفاع نے 2013 اور پھر 2016 میں آرمی چیف کی تعیناتیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف جنرل راحیل شریف کو نہیں جانتے تھے البتہ کور کمانڈرز راولپنڈی رہنے کی وجہ سے اُن کی جنرل قمر جاویدباجوہ سے شناسائی تھی۔
خواجہ آصف کے بقول نواز شریف نے دونوں مواقع پر فوج کی سفارشات کا احترام کرتے ہوئے میرٹ کو مدِنظر رکھتے ہوئے آرمی چیفس کی تقرریاں کیں۔
موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے سوال پر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ ایکسٹینشن نہیں لیں گے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ بھی انسٹی ٹیوشنلائز ہونا چاہیے جس طرح عدلیہ میں پتا ہوتا ہے کہ 2028 میں چیف جسٹس کون بنے گا اسی طرح کا طریقۂ کار فوج میں بھی ہونا چاہیے۔
خیال رہے کہ عمران خان حکومت نے 2019 میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تین سالہ مدتِ ملازمت ختم ہونے پر اُنہیں تین سال کی مزید توسیع دے دی تھی۔ تاہم اُن کو مزید توسیع دینے کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل بابر افتحار نے حالیہ پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ آرمی چیف مزید توسیع کے متمنی نہیں اور رواں برس نومبر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔
خواجہ آصف کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کو سیاسی مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ یہ ایک انتظامی معاملہ ہے اور اداروں کا مضبوط ہونا ملک کے مفاد میں ہے۔
فواد چوہدری کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر مسلم لیگ (ن) کاکوئی رہنما فوری انتخابات کی بات کر رہا ہے تو اسے حقیقت کا ادراک سمجھنا چاہیے۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف کی آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق تجویز گفتگو کرتے ہوئے سینئر دفاعی تجزیہ کا رلیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ فوج ایک کمانڈ کے تحت چلتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں تو یہ تعین کیا جا سکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں سنیارٹی کے لحاظ سے کون چیف جسٹس ہو گا، تاہم فوج چونکہ کمانڈ کے تحت چلتی ہے۔ لہذٰا اس تقرری کو انسٹی ٹیوشنلائز کرنے سے موجودہ کمانڈر کی کمانڈ کمزور پڑ سکتی ہے۔
جنرل لودھی کا کہنا تھا کہ یہ وزیرِ اعظم کا آئینی اختیار ہے کہ وہ آرمی چیف کی تقرری کرے، لیکن ادارے کے لیے یہ تاثر مناسب نہیں ہوتا کہ ایک برس قبل ہی یہ بات عام ہو جائے کہ وزیرِ اعظم کا کوئی فیورٹ ہے۔
اُن کے بقول اگر چیف ایگزیکٹو اپنے فیورٹ کا پہلے سے ہی اظہار کر دے تو نہ تو ادارے کے لیے مناسب ہوتا ہے اور نہ ہی اس عمل میں شفافیت ہوتی ہے۔ لہذٰا عین وقت پر ہی وزیرِ اعظم کو فوج کی جانب سے دیے گئے ناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا چاہیے۔
آرمی چیف کی تقرری کیسے ہوتی ہے؟
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) جنرل آصف یاسین کے مطابق آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے وقت وزیراعظم آفس کی جانب سے وزرات دفاع کو نئے آرمی چیف کی تعینانی کے حوالے سے ایک مراسلہ لکھا جاتا ہے جسے آرمی چیف کے ساتھ بھی شیئر کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد وزراتِ دفاع سنیارٹی کے لحاظ سے عمومی طور پر پانچ 'اہل' آفیسرز کے نام لکھ کر دے دیتی ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے نذر الاسلام سے گفتگو کرتے ہوئے آصف یاسین کا کہنا تھا کہ یہ مکمل طور پر وزیراعظم کی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ ان فراہم کردہ ناموں میں کس کو چنتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک انہیں یاد پڑتا ہے جنرل ضیا الحق کی تعیناتی کے وقت سات نام بھیجے گئے تھے۔
الیکشن پر مسلم لیگ ن کی رائے منقسم ہے
سیاسی و دفاعی تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) میں اس وقت اتفاق رائے موجود نہیں ہے کہ الیکشن کب کرائے جائیں۔ بعض کا خیال ہے کہ فوری طور پر الیکشن کرائے جائیں۔
حسن عسکری کے مطابق جلد انتخابات کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ جتنا ہم الیکشن میں تاخیر کریں گے اتنے ہی اقتصادی مسائل بڑھیں گے اور اس کا فائدہ الیکشن میں عمران خان کو ہو گا۔
ان کے مطابق دوسری جانب ایک ایسا حلقہ بھی ہے جس کی رائے میں وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے بات چیت کی صورت میں مدد حاصل ہوگئی توایک قابل قبول بجٹ بنایا جاسکتا ہے جس سے کسی حد تک سیاسی استحکام لایا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آئندہ ماہ 15 جون کے قریب بجٹ آ سکتا ہے اور اس کے بعد ہی یہ سب کچھ واضح ہوگا کہ یہ حکومت جلد الیکشن چاہتی ہے یا اپنی مدت کی تکمیل کی جانب بڑھتی ہے۔ البتہ ستمبر یا اکتوبر سے قبل الیکشن نا ممکن نظر آتے ہیں۔