سائنس دانوں نے پہلی بار چاند سے لائی ہوئے مٹی میں پودے اگانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ یہ مٹی عرصہ پہلے چاند پر جانے والے ناسا کے خلاباز زمین پر لائے تھے۔
یہ تجربہ یونیورسٹی آف فلوریڈا کے سائنس دانوں نے کیا۔ اس سے پہلے یہ معلوم نہیں تھا کہ آیا چاند کی مٹی میں بھی بیج ڈال کر پودے پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ یہ مٹی ناسا کے راکٹ اپالو گیارہ سے پہلی بار چاند پر اترنے والے خلاباز نیل آرمسٹرانگ، اور بز ایلڈرین اور بعد ازاں چاند کی سطح پر اپنے قدم اتارنے والے دوسرے خلاباز زمین پر لائے تھے۔
یونیورسٹی کے ماہرین نے بتایا ہے کہ چاند کی مٹی میں ایک پھول دار پودے ’تھیل گرس ‘ کے جتنے بھی بیج ڈالے گئے تھے، وہ سب پھوٹے ، لیکن پودے زیادہ بڑے نہیں ہو سکے۔ سائنس دان دوسرے پودے اگانے سے پہلے تھیل کرس پر کچھ مزید تجربات کرنا چاہتے ہیں۔
فلوریڈا یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف فود اینڈ ایگریکلچرل سائنسز کے ایک سائنس دان رابرٹ فیرل نے بتایا کہ چاند کی مٹی میں پودے اگتے ہوئے دیکھنا ہمارے لیے یہ حیرت انگیز تھا ۔ ان کا کہناتھا کہ اچھی خبر یہ ہے کہ ہم نے چاند کی مٹی میں جتنے بھی بیج بوئے، وہ سب کے سب اگے۔
لیکن اس تجربے میں ماہرین کے لیے مایوسی کا ایک پہلو یہ تھا کہ بیج پھوٹنے کے ایک ہفتے کے بعد ان کا عمل سست پڑ گیا۔ اور اس کے بعد زیادہ تر پودے مرجھائے ہوئے سے لگنے لگے ۔
سائنسی جریدے ’کمیونیکیشز بیالوجی‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اس کی وجہ چاند کی مٹی میں کائنات کی تابکاری اور سورج سے خارج ہونے والی لہروں کا جذب ہونا ہے۔ مٹی جتنی زیادہ ان کی زد میں رہی ہو گی، وہ پودوں کے بڑھنے میں اتنی ہی زیادہ رکاوٹ پیدا کرے گی۔
یونیورسٹی آف وسکانسن میڈیسن میں نباتات کے ایک ماہر سائمن گلرائے ، جو اس تحقیق سے منسلک نہیں تھے، کہتے ہیں کہ اب یہ معلوم ہوگیا کہ چاند کی مٹی میں پودے اگائے جا سکتے ہیں جو ایک بڑی پیش رفت ہے۔ اگلا حقیقی قدم یہ ہے کہ آپ چاند پر جا کر اس کی سطح پر پودے اگائیں۔
تابکار مٹی شہہابیوں کے انتہائی باریک ذرات کی گرد کی شکل میں چاند کی سطح پر ہر جگہ بکھری ہوئی ہے۔خلابازوں کو چاند پر لے جانے اور واپس لانے والے راکٹ اپالو کی سیڑھیاں اور چاند پر اترنے والے خلابازوں کی خلائی لباس بھی چاند کی اس گرد سے اٹ گئے تھے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے چاند پر پودے اگانے کے لیے وہاں کے ان جغرافیائی حصوں کا انتخاب زیادہ بہتر رہے گا جنہیں فضا سے گرنے والی تابکار گرد کا کم سے کم سامنا رہا رہو۔ یہ تابکار گردشہابیوں کے تباہ ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چاند کی سطح کے وہ حصے جو آتش فشاں پہاڑوں کے لاوے کی وجہ سے اوٹ میں چلے گئے ہیں اور براہ راست خلا کے سامنے نہیں ہیں۔ تابکار گرد سے نسبتاً محفوظ ہیں۔ ان جگہوں پر پودوں کے پھلنے پھولنے کا امکان زیادہ ہے کیونکہ وہاں کی مٹی کم تابکار ہے۔
چاند پر لاتعداد ایسی چوٹیاں ہیں جن کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ ماضی کے آتش فشاں ہیں جو اب ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔ چاند کی سطح انہی آتش فشاں پہاڑوں سے پھوٹنے والے لاوے سے بنی ہے۔ ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ چاند پر آتش فشاں پہاڑ پھٹنے اور لاوا ابلنے کے ابتدائی نشان لگ بھگ سوا چار ارب سال پہلے ملتے ہیں۔ اور اس کے بعد تین ارب سال پہلے تک چاند کی سطح پر جگہ جگہ آتش فشان پہاڑ پھٹ رہے تھے جس سے بہنے والا لاوا چاند کی سطح کو تشکیل دے رہا تھا۔ چاند پر آتش فشانی کی آخری علامتیں 50 لاکھ سال پہلے ملتی ہیں۔ اس کے بعد سے وہاں خاموشی ہے۔
چاند سے لائی جانے والی مٹی برسوں تک ناسا کے پاس پڑی رہی۔ اس دوران چاند کی سطح پر پودے اگانے میں دلچسپی رکھنے والے سائنس دان زمین کے ان آتش فشانی حصوں سےمٹی لے لر تجربا ت کرتے رہے جو چاند کی مٹی سے متشابہ تھے۔ تاہم ان میں تابکاری کا عنصر نہیں تھا۔
بالآخر ناسا نے پچھلے سال کے شروع میں یونیورسٹی آف فلوریڈا کو چاند سے لائی جانے والی مٹی میں سے 12 گرام کا تحفہ دیا۔ جس پر یونیورسٹی کے ماہرین نے گزشتہ سال مئی کے آخر میں لیبارٹری تجربات کا آغاز کیا۔
ناسا نے پودے اگانے کے تجربے پر طمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان تجربات کے لیے موجودہ وقت انتہائی مناسب ہے کیونکہ خلائی ادارہ آئندہ چند سال میں خلابازوں کو دوبارہ چاند پر اتارنے کی تیاری کر رہا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چاند کی مٹی میں پودے اگانے کے کامیاب تجربے کے بعد مستقبل کے خلابازوں کے پاس یہ انتخاب موجود ہو گا کہ وہ چاند پر اپنی رہائش کے دوران باہر سے مٹی لا کر ایک بند ماحول میں مستقل بنیادوں پر سبزیاں اگائیں یا مٹی کی بجائے انہیں پانی میں ہی کاشت کریں جیسا کہ یہاں زمین پر کئی زرعی فارموں میں کی جاتی ہیں۔
ناسا کی خلامیں نباتاتی امور کے پروگرام کی ایک سائنس دان شرمیلا بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے اگنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں واقعتاً ایک ا چھا آغاز مل گیا ۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ ہم اس میں اضافہ کیسے کر سکتے ہیں اور بہتر کیسے بنا سکتے ہیں۔
یونیورسٹی آف فلوریڈا کے سائنس دان موجودہ سال کے آخر میں اسی مٹی دوبارہ استعمال کرتے ہوئے ’تھیل کرس ‘ کو ایک پھر اگانا چاہتے ہیں جس کے بعد وہ دوسری قسم کے پودے اگانے کے تجربات کریں گے۔