رسائی کے لنکس

دہشت گردی کے الزامات: یاسین ملک نے اعترافِ جرم کیا یا نہیں؟


یاسین ملک۔
یاسین ملک۔

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف )نے بھارتی ذرائع ابلاغ کی ان خبروں کی تردید کی ہے جن میں کہا جارہا ہے کہ تنظیم کے سربراہ محمد یاسین ملک نے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور ان میں معاونت کا اعتراف کر لیا ہے۔

یاسین ملک تین سال سے زائد عرصے سے دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں اور ان کے خلاف مختلف الزامات کے تحت جموں و کشمیر اور نئی دہلی کی عام اور خصوصی عدالتوں میں کئی مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔

بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی نئی دہلی میں قائم کردہ ایک خصوصی عدالت نے حال ہی میں یاسین ملک اور 15 دیگر ملزمان پر 2017 میں دہشت گردی کی فنڈنگ کے حوالے سے درج کیے گئےایک کیس میں فردِ جرم عائد کرنے کے احکامات صادر کیے تھے۔

غیر قانونی سرگرمیوں کے انسدادسے متعلق قانون کے تحت درج کیے گئے اس مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر مجرم کو عمر قید تک کی سزا ہوسکتی ہے۔

این آئی اے بھارت میں انسدادِ دہشت گردی کی ٹاسک فورس ہے اور اسے ملک کے کسی بھی حصے میں پیش آنے والے مبینہ دہشت گردی کے واقعے کی از خود تحقیقات کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

اس ادارے کو تحقیقات کے لیے متعلقہ صوبائی اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقے کی انتظامیہ کی اجازت لینا بھی ضروری نہیں ہے۔ این آئی اے بھارتی وزارتِ داخلہ کے ایک حکم نامے کے مطابق قائم کی گئی خصوصی عدالتوں میں ملزمان کے خلاف مقدمے بھی چلاسکتی ہے۔

یاسین ملک کے اعتراف کی خبریں

گزشتہ دنوں بھارتی ذرائع ابلاغ نے ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) اور پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے حوالے سے یہ خبر دی تھی کہ کشمیر کی آزادی کے حامی رہنما یاسین ملک نے عدالت میں خود پر دہشت گردی سے متعلق لگائے گئے تمام الزامات تسلیم کرلیے ہیں۔

بھارتی کشمیر: 'جس کو چاہتے ہیں پکڑ لیتے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:12 0:00

بھارت کے ایک آن لائن اخبار 'دی پرنٹ' نے عدالت کی طرف سے مقرر کردہ معاون ایڈووکیٹ اکھنڈ پرتاپ سنگھ کےحوالے سے اپنی ایک رپور ٹ میں کہا ہے کہ یاسین ملک نے خود پر لگائے گئے الزامات تسلیم کیے اور سزا کا سامنا کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔

یاسین ملک نے 'جرم' قبول نہیں کیا: مشعال ملک

یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک اور کے ایل ایف نے بھارتی میڈیا کی ان خبروں کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے یاسین ملک نے عدالت میں جرم قبول نہیں کیا بلکہ یہ کہا ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ بالکل اُسی طرح جس طرح بھگت سنگھ اور مہاتما گاندھی نے ہندوستان کی آزادی کے لیے انگریزوں سے لڑائی کی تھی۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یاسین ملک نے عدالت کو بتایا تھا کہ عدلیہ بھارتی حکومت کی ایما پر انہیں جھوٹے الزامات میں مجرم ٹھہرا کر سزا دینے کے لیے طریقے استعمال کررہی ہے۔اس لیے وہ احتجاجا"اپنے دفاع میں وکیل مقرر نہیں کررہے۔"

یاسین ملک کے مقدمے کی اگلی سماعت 19 مئی کو ہو گی۔

مشعال ملک نے اپنے شوہر کی بھارتی جیل سے رہائی کے مطالبے کے حق میں ٹوئٹر اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز پر ایک مہم شروع کردی ہےجس کی پاکستان، برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک اور امریکہ میں مقیم کشمیری اور پاکستانی تارکینِ وطن کا ایک وسیع حلقہ حمایت کررہا ہے۔

مشعال ملک نےبھارتی عدلیہ کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ وہ موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اور اس کی سرپرست تنظیم راشتریہ سوئم سیوک سنگھ کی ایما پر ان کے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے قانون اور انصاف کا خون کررہی ہے۔ ان کے شوہر پر چلایا جانے والا مقدمہ اور اس کی کارروائی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

بھارتی کشمیر میں امن اور 'نارملسی' کے لوٹ آنے کا دعویٰ

بھارتی حکومت نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم درجنوں علیحدگی پسند رہنماؤں اور کارکنوں کو ٹیرر فنڈنگ، ملک سے غداری اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت قید کررکھاہے۔ حکومت وادی میں امن لوٹ آنے کے دعوے کر رہی ہے لیکن حالات اس کے برعکس ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار پروفیسر نور احمد بابا کا کہنا ہے کہ وفاق کے زیرِ کنٹرول علاقے بالخصوص وادی کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ اور عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے سیاسی مخالفین کو اپنی سرگرمیاں آزادانہ طور پر جاری رکھنے کی اجازت نہیں ہے اور یہ صورتِ حال حکومت کے امن اور 'نارملسی' لوٹنے کے دعوے کی نفی کرتی ہے۔

انہوں نے کہا بھارتی آئین کو تسلیم کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات میں حصہ لینے والے انجنیئر رشید جیسے سیاسی لیڈر اور کارکن بھی جیلوں میں بند ہیں جو حکومتی دعوؤں پر سوالیہ نشان ہے۔

حکومتی عہدے داروں کا کہنا ہے امن برقرار رکھنے کی خاطر "سماج اور ملک دشمن عناصر" کی سرگرمیوں پر بعض قدغنیں لگانا ناگزیر ہے ۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ مختلف قوانین کے تحت گرفتاریاں اور لوگوں کو نظر بند کرنے کا عمل ان کے خلاف ناقابلِ تردید ثبوت ملنے کے بعد ہی شروع کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ملزمان کو عدالتوں میں اپنے دفاع کا بھرپور موقع دیا جاتا ہے۔

لیکن انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور کارکن جن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ایشیا واچ بھی شامل ہیں، بارہا یہ الزام لگاچکی ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیاسی اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے پبلک سیفٹی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد (یو اے پی اے) جیسے سخت قوانین کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ ان قوانین کے تحت پابندِ سلاسل کیے گئے افراد میں چند انسانی حقوق کے کارکن اور صحافی بھی شامل ہیں جبکہ ملک سے غداری کے قانون کے تحت اس وقت 26 افراد پر مقدمے درج ہیں۔

واضح رہے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1978سے نافذ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو اُس پر مقدمہ چلائے بغیر تین ماہ سے دو سال تک قید کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس طرح کی نظر بندی کو ایک عام عدالت میں چیلینج کیا جاسکتا ہے۔ نیز ایک سرکاری کمیٹی اس طرح کے معاملات کا وقفے وقفے سے جائزہ لیتی ہے-

جہاں تک ملک سے غداری کے قانون کا تعلق ہےتو بھارت کی سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں ایک اہم کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اس قانون کے تحت مقدمات کے اندراج اور زیرِ التوا معاملات پر کارروائی روکنے کا حکم دیا تھا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG