اب تو کچھ عرصے کے لیے چھٹیاں آنے والی تھیں اور نجوان سمری نے اپنی دوست شیریں ابو عاقلہ کے ساتھ ان چھٹیوں کے بہت سے پروگرام بنائے تھے۔
11مئی کی صبح عاقلہ نے سمری کو ٹیکسٹ پیغام بھیجا کہ اختتامِ ہفتہ استنبول چلیں گے۔۔۔سیر کریں گے اور شاپنگ بھی۔دونوں کی ملاقات قطری نشریاتی ادارے، الجزیرہ کے لیے کام کے دوران ہوئی تھی۔
باتوں میں جنین کے ہنگاموں کے بارے میں عاقلہ کی رپورٹنگ کا بھی ذکر آیا۔ صبح کے تین بجے تھے، عاقلہ نے کہا، "اب بس۔۔۔مجھے یاد دلانا میں تمہیں ایک ضروری بات بتاؤں گی۔"
"ارے ابھی بتاؤ ناں!۔۔۔نہیں بعد میں۔۔۔"
وائس آف امریکہ کی سروان کاجو سے بات کرتے ہوئے سمری کہتی ہیں اب وہ کبھی نہیں جان پائیں گی کہ شیریں انہیں کیا ضروری بات بتانا چاہتی تھیں۔
کیونکہ صبح جب وہ سوکر اٹھیں تو عاقلہ اس دنیا میں نہیں تھیں۔ الجزیرہ کی صحافی،شیریں ابو عاقلہ، جو فلسطینی تنازعے کی خبروں کے لیے بڑا نام تھیں، مغربی کنارے کے شہر جنین میں اسرائیلی فورسز کی ریڈ کی خبر بناتے ہوئے جان سے گئیں۔
ہنگامہ، نعرے ہجوم، احتجاج۔۔گولیوں کی آواز اور گرتے نوجوان۔۔۔ انہیں کی خبریں تو وہ دس سال سے بنا رہی تھیں۔۔۔مگر اس مرتبہ ایک گولی انہیں ہمیشہ کے لیے خاموش کر گئی۔
اکیاون سالہ فلسطینی نژاد امریکی، شیریں ابو عاقلہ کی موت کی بین الاقوامی طور پر مذمت کی گئی۔ امریکہ، اقوامِ متحدہ، برطانیہ اور ویٹیکن سے لیڈروں نے بیانات جاری کیے۔
فلسطینی حکام اور کئی آزاد گروپوں کی، جنہوں نے وڈیو کا جائزہ لیا اور بہت سے عینی شاہدوں سے گفتگو کی، ابتدائی چھان بین سے ظاہر ہوا ہے کہ عاقلہ چھپ کر گولی چلانے والے سنائیپر کی گولی کا نشانہ بنیں۔
فلسطینی حکام کہتے ہیں کہ اسرائیلی فوجیوں نے جان بوجھ کر عاقلہ کو نشانہ بنایا۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ حالات واضح نہیں ہیں۔ وائس آف امریکہ نے اسرائیلی حکومت اور فوج کے کئی ترجمانوں سے رابطہ کیا مگر جواب نہیں ملا۔
صحافی خطرے میں
اتنی نامور صحافی کا قتل خطے میں تصادم اور گڑ بڑ کی خبریں بنانے والے صحافیوں کو درپیش خطرات کو واضح کرتا ہے۔
میڈیا کی عالمی تنظیم رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز نے عاقلہ کی موت سے ایک ہفتہ پہلے ہی اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا،" مغربی کنارے میں واقعات کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو منظم طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔"
سمری کہتی ہیں کہ ان کی دوست کی موت کے ذمے داروں کو ضرور سزا ملنی چاہئیے،" ایک گولی سے انہوں نے ان بہت سی محبوب شخصیات کو مارڈالا جو مجھے ایک شیریں میں نظر آتی تھیں۔"
سمری جن کا تعلق گلیلی کے شمالی علاقے سے ہے، سن 2000 میں کالج کی تعلیم کے لیے یروشلم آئیں۔وہ کہتی ہیں،" شیریں میرے لیے اس دینا میں سلامتی کی ضمانت تھیں۔ میرا خاندان، میری بچپن کی سہیلیاں سب گلیلی میں رہ گئی تھیں۔ شیریں ضرورت کے وقت میرے لیے ماں تھیں، بہن تھیں۔۔۔دوست تھیں ۔ ہم کام کے بعد روز ملتے تھے اور روزانہ فون پر دس منٹ ضرور بات کرتے تھے۔"
شیریں کو گولی لگنے کی خبر سن کر سمری ہسپتال پہنچیں۔انہوں نے شیریں کو بہت پکارا مگر وہ واپس نہیں آئیں۔گھر پہنچیں تو اپنے بیٹے کا سوال انہیں مار گیا۔۔"ماں کیا وہ اب آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے؟"
مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی پہلی خاتون صحافی
یروشلم میں ایک کیتھولک خاندان میں پیدا ہونے والی شیریں ابو عاقلہ 1990 کے عشرے کے اوائل میں امریکہ آئیں اور امریکی شہریت ملتے ہی وہ مشرقِ وسطیٰ واپس چلی گئیں۔
انہیں عرب دنیا میں جنگ کی کوریج کرنے والی پہلی خاتون صحافی خیال کیا جاتا تھا۔
ان کے بھائی اینٹن ابو عاقلہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شیریں ان کا مقبول نام تھا اور فلسطینی اور عرب دنیا میں رپورٹنگ کے لیے انہیں اسی نام سے جانا جاتا تھا۔ وہ اپنے پیشے، اپنے آبائی وطن، اپنے فلسطینیوں کے مقصد کے لیے خود کو وقف کر چکی تھیں۔
وہ کہتے ہیں، " شیریں نے صحافت کو اپنے لوگوں کے مصائب اجاگر کرنے کا انتہائی مناسب پلیٹ فارم جانا۔"
گزشتہ ہفتے امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ انہوں نے عاقلہ کے خاندان سے تعزیت کی ہے اور کہا ہے کہ اس واقعے کی فوری اور مصدقہ چھان بین ہونی چاہئیے۔
فلسطینی صحافی نشانے پر
عاقلہ کی موت سے چند ہفتے پہلے میڈیا کے حقوق کی تنظیموں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں ایک لاء سوٹ داخل کیا تھا جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ " فلسطینی صحافیوں کو منظم طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔"
اس شکایت میں مزید کہا گیا تھا کہ اس خطے میں سن 2000 سے اب تک 46 صحافی مارے جا چکے ہیں اور کسی کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا گیا۔
فلسطینی عہدیداروں نے کہا ہے کہ ان کی ابتدائی چھان بین سے ظاہر ہوا ہے کہ عاقلہ کی موت اسرائیلی فائر سے ہوئی۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ حالات واضح نہیں ہیں اور یہ کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے شہادتیں شئیر کرنے سے انکار کے معنی ہیں کہ اسرائیلی عہدیدار چھان بین مکمل نہیں کر سکتے۔
فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کے باعث شہادتیں اسرائیل کے ساتھ شئیر کرنے سے انکار کیا گیا ہے اور انہوں نے اسرائیلی حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ چھان بین کی پیشکش سے بھی اتفاق نہیں کیا۔
تاہم مغربی کنارے میں رملہ سے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کے وزیرِ انصاف محمد الشلالدہ نے کہا کہ ان کے پاس گولی موجود ہے۔انہوں نے کہا،" اس گولی کو بڑے ثبوت کے طور پر اور چھان بین کے حتمی نتیجے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔"
کوئی تفتیش نہیں ہوگی
اسرائیلی روزنامے ہاریتز کے مطابق گزشتہ ہفتے جمعرات کے روز اسرائیل کی فوجی پولیس نے کہا کہ چونکہ کسی فوجداری ایکٹ کا شبہ نہیں ہے اس لیے کوئی تفتیش شروع نہیں کی جائے گی۔
اکیوا ایلڈر ایک اسرائیلی سیاسی تجزیہ کار ہیں اور ہاریتز کے لیے لکھتے ہیں وہ کہتے ہیں ہو سکتا ہےکوئی اسرائیلی چھان بین مددگار ثابت نہ ہو۔
وہ کہتے ہیں،" اسرائیلی قانون کے مطابق مقبوضہ علاقے اب بھی جنگی زون سمجھے جاتے ہیں اور جنگی زون میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔"
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا،" شیریں کی موت کے سلسلے میں بہت ہوا تو فوج نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر کارروائی کے تحت کسی کو چند ماہ کے لیے جیل بھیج دے گی۔ایلڈر نے مزید کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اسرائیلی حکومت صحافیوں کو نشانہ بنانے کی پالیسی رکھتی ہے۔
مگر عاقلہ کا خاندان، ان کے دوست احباب اب بھی اس عزم پر قائم ہیں کہ جب تک سوالوں کے جواب نہ ملیں،جب تک انصاف نہ ہو وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
( یہ رپورٹ وائس آف امریکہ انگلش کے لیے سروان کاجو نے مرتب کی)