اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے حکام نے حالیہ ہفتوں کے دوران فلسطینی علاقوں اور اسرائیل میں ہونے والے پر تشدد واقعات کی غیر جانب دارانہ اور آزادنہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں ہونے والے پر تشدد واقعات میں درجنوں فلسطینی ہلاک اور زخمی ہوئے تھے جب کہ سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔
اسرائیل میں گزشتہ کئی برس سے ہونے والے حملوں میں سے سب سے ہلاکت خیز کارروائی میں فلسطینیوں کے ہاتھوں 12 اسرائیلی اور دو غیر ملکی شہری بھی ہلاک ہوئے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے حکام کی جانب سے تشدد میں ہونے والے اضافے پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے جس کی وجہ وہ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کے ضرورت سے زیادہ استعمال کو سمجھتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں لگ بھگ 180 فلسطینی زخمی ہوئے تھے جن میں 27 بچے بھی شامل تھے۔
یہ پر تشدد واقعات مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں ہونے والی کشیدگی کے دوران ہوئے جو کہ مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے مقدس مقام ہے۔
اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی ترجمان روینا شام دسانی کا کہنا ہے کہ ان واقعات کی ویڈیوز سے اسرائیلیوں کے طرزِ عمل نے شدید تشویش پیدا کر دی ہے جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ غیر ضروری اور بلا امتیاز ہے۔
روینا کا مزید کہنا تھا کہ متعدد فلسطینی جن میں عمر رسیدہ افراد، خواتین، بچے اور ایک صحافی شامل تھے، سے اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے لیے کسی قسم کا خطرہ نہیں تھا۔ انہیں لاٹھیوں سے مارنے کے علاوہ ان پر قریب سے ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں جس کی وجہ سے ان میں سے چند افراد کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور کئی افراد کو براہِ راست ان کے سروں پر ربڑ کی گولیاں ماری گئیں۔
مسجدِ اقصیٰ میں ہونے والی ان پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے غزہ کے فلسطینی مسلح گروہ رواں ماہ 18 سے 21 اپریل کے درمیان اسرائیل پر چھ راکٹس اور ایک مارٹر شیل فائر کر چکے ہیں، جس کے جواب میں اسرائیل کی فورسز نے غزہ میں فضائی کارروائی کی، تاہم اسرائیل اور غزہ میں کسی کی ہلاکت رپورٹ نہیں کی گئی۔
حکام کی طرف سے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے کشیدگی کم کرنے کے پیغام کو بھی پہنچایا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ جہاں لوگ ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں، وہاں تحقیقات کی جائیں۔
روینا کے بقول اسرائیل کی فورسز کی طرف سے ضرورت سے زیادہ اور مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے پیدا ہونے والے خدشات نئے نہیں ہیں۔