پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ہفتہ وار بنیادوں پر دو فی صد جب کہ سالانہ بنیادوں پر 20 فی صد مہنگائی میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔البتہ ماہرین معیشت کے خیال میں پاکستان میں حال ہی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے مکمل اثرات ابھی سامنے آنا باقی ہیں۔
ملک میں 27 مئی اور پھر تین جون کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 60 روپے فی لیٹر اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب بھی اس کی فروخت پر تقریباً 9 روپے سبسڈی دی جا رہی ہے۔جب کہ عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) سے کیے گئے معاہدے کے تحت پیٹرولیم لیوی ڈیوٹی کی وصولی اب تک شروع نہیں کی جاسکی ہے اور سیلز ٹیکس کی شرح بھی صفر ہے۔
ادارۂ شماریات کا کہنا ہے کہ ملک میں رواں ہفتے آلو، انڈوں، گھی، روٹی، دالوں کوکنگ آئل، چینی، صابن جیسی بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے جب کہ مرغی، لہسن، ٹماٹر اور آٹے کی قیمتوں میں معمولی کمی دیکھی گئی ہے۔
البتہ ماہرین معیشت کے خیال میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ابھی مہنگائی کی لہر آنا باقی ہے۔مئی میں مہنگائی بڑھنے کی رفتار 13.8 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی جو اپریل کے 13.4 فی صد سے زیادہ تھی۔گزشتہ سال مئی میں یہ شرح 10.9 فی صد تھی۔
ماہر معیشت شہریار بٹ کے مطابق اس بات کا امکان بھی پایا جاتا ہے کہ ملک میں 15 جون کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے اور اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مہنگائی کہاں تک جاسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے مہنگائی کو 11.5 فی صد تک محدود رکھنے کا ہدف مقرر کیا ہے لیکن ان کے خیال میں اس ہدف کو حاصل کرنا مشکل نظر آتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ مہنگائی کی شرح آنے والے سال میں اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔
شہریار بٹ کے بقول عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافےکا سلسلہ جاری رہا تو مہنگائی 16 سے 20 فی صد تک رہنے کا خدشہ ہے کیوں کہ آنے والے دنوں میں گیس کی قیمتوں میں 45 فی صد اور بجلی کی قیمت میں 8 روپے فی یونٹ کا بڑا اضافہ متوقع ہے۔ اسی طرح تنخواہ دار طبقے اور کارپوریٹ کے شعبے کے لیے نئے بجٹ میں مزید ٹیکس عائد کیے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس اضافے سے جہاں عام آدمی متاثر ہوگا وہیں یہ ترقی کی شرح کے حصول میں بھی منفی ثابت ہو سکی ہے جس کے لیے حکومت نے آئندہ مالی سال میں ہدف 5 فی صد مقرر کیا ہے۔
شہریار بٹ کا کہنا تھا کہ روس اور یوکرین کی جاری جنگ میں ابھی تک اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ ان قیمتوں میں فوری کمی آئے گی البتہ امریکہ کی جانب سے روس کو تیل کی فروخت پر پابندی کے بعد ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ امریکہ ایرانی تیل کو عالمی مارکیٹ میں کسی حد تک فروخت کی اجازت دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے بھی اگست میں تیل کی پیداوار بڑھانے کا عندیہ دیا ہے جس کے بعد ہی تیل کی قیمتوں میں کمی کا امکان ہے۔
ادھر سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا بھی کہنا ہے کہ چوں کہ عالمی منڈی میں اجناس بالخصوص تیل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے،لہٰذا اس کا اثر آنے والے دنوں میں ملک میں یقینی طور پر نظر آئے گا۔ ان کے بقول ملک میں اب بھی پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کی گنجائش موجود ہے۔
ڈاکٹر پاشا کا کہنا تھا کہ اگر پیٹرولیم مصنوعات پر اس وقت دی جانے والی تمام تر سبسڈی ہٹادی جائے اور بجلی کی قیمتوں میں بھی آٹھ روپے فی یونٹ اضافہ کردیا جائے تو ان کے بقول ان دونوں سے ملک میں افراط زر یعنی مہنگائی کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوگا اور یہ شرح 23 فی صد کی رفتار سے بڑھ جائے گی۔ اس وقت یہ شرح 13.8 فی صد ہے جس میں تقریباً 9 فی صد اضافے کا خدشہ ہے۔
ڈاکٹر پاشا کے بقول اس ساری صورتِ حال میں مرکزی بینک شرح سود مزید بڑھانے پر مجبور ہوگا جس سے معیشت کی رفتار مزید گھٹے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرنے کے بجائے ترقیاتی بجٹ کو کم رکھے گی، جس سے اگر آئندہ سال معاشی ترقی کی رفتار 3 فی صد بھی رہ جائے تو غنیمت ہے جب کہ حکومت نے یہ ہدف 5 فی صد مقرر کیا ہے۔
معاشی بحران سے نکل آئے ہیں: وزیرخزانہ
دوسری جانب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حکومت سادگی اپنانے کے لیے بعض اقدامات کا اعلان کرے گی لیکن ملک میں معاشی ایمرجنسی کی کوئی صورتِ حال نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دو بار اضافے کے بعد ہم معاشی بحران سے نکل آئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ حکومت کا غیر ملکی کرنسی اکاؤںٹ منجمند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
معاشی بحران کے دوران دفاعی اخراجات کی تجویز
دوسری جانب حکومت نے ملک بھر میں ترقیاتی اسکمیوں کے لیے آئندہ بجٹ میں 900 ارب روپےمختص کرنے کی تجویز دی ہے جو گزشتہ مالی سال میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے مختص بجٹ کے برابر رقم ہے۔ تاہم رواں مالی سال کے دوران مشکل معاشی صورتِ حال کے باعث بمشکل اس کا نصف ہی خرچ ہوپایا۔
موجودہ حکومت نے دفاع کے لیے بجٹ میں چھ فی صد اضافے کے ساتھ 1453 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی ہے جو پاکستان کی مجموعی ٹیکس وصولیوں کا تقریباً 24 فی صد بنتا ہے۔
دفاعی بجٹ کے علاوہ مسلح افواج کے ریٹائرڈ ملازمین کو سول حکومت کے بجٹ سے 385ارب روپے کی پینشن بھی ادا کی جائے گی جو گزشتہ مالی سال کے دوران360 ارب روپے تھی۔
دفاع بجٹ میں اضافے کو جہاں بعض حلقے مہنگائی میں اضافے سے جوڑ کر جائز قرار دے رہے ہیں،وہیں اس اضافے پر تنقید بھی کی جا رہی ہےاور اس اضافے کو ملک کو درپیش معاشی بحران، قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات اور جاری خساروں میں اضافے کے باوجود ناقابل برداشت کہا جارہا ہے۔
البتہ اس کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ اس کے سب سے بڑے حریف اور پڑوسی ملک بھارت کے مقابلے میں اب بھی 85 فی صد کم ہے۔