افریقہ کے ملک نائیجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں ہجوم نے ایک شخص کو مسلم عالم سے بحث کے بعد مبینہ توہینِ مذہب کا الزام لگا کر جلا کر قتل کر دیا۔
پولیس کے مطابق احمد عثمان نامی شخص نے ایک نامعلوم عالم دین کے ساتھ بحث کی تھی بعد ازاں اس شخص پر تشدد کیا گیا۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق پولیس ہجوم کے تشدد کا نشانہ بننے والے ایک شخص کو جائے وقوع سے اسپتال لے کر پہنچی تاہم طبی عملے نے تصدیق کی کہ اس مذکورہ شخص کی موت واقع ہو چکی ہے۔
پولیس ترجمان جوسیفائن ادھے کے مطابق عالم دین اور ہلاک ہونے والے شخص کے درمیان ہونے والی بحث تشدد میں بدل گئی تھی جس کی وجہ سے لگ بھگ 200 مشتعل افراد نے احمد عثمان کو تشدد کا نشانہ بنایا، بعد ازاں اس کو آگ لگا دی گئی جس سے احمد عثمان کی حالت خراب ہو گئی۔
نائیجیریا میں ایک ماہ قبل بھی کالج کی ایک طالبہ کو مار مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اس طالبہ پر اس کی ساتھی طالبات نے الزام عائد کیا تھا کہ اس نے سوشل میڈیا ایپلی کیشن وٹس ایپ کے دوستوں کے ایک گروپ میں مبینہ توہینِ آمیز پیغام بھیجا تھا۔
طالبہ کی موت کے اس واقعے سے جڑی دو طالبات کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
نائیجیریا کو عمومی طور پر ایک سیکولر ملک قرار دیا جاتا ہے تاہم ملک کے شمالی علاقوں میں اسلامی قوانین کی پیروی کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اسی طرح بعض علاقوں میں عدالتوں میں شرعی قوانین سے پر عمل نہ کرنے والوں کو سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔
ابوجا میں توہینِ مذہب کے الزام میں قتل کیے گئے شخص کے حوالے سےمقامی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا ہے کہ اس مقام پر موجود بعض شہریوں نے مشتعل ہجوم کو اسے چھوڑنے کی اپیل بھی کی تاہم کئی افراد احمد عثمان ٹھوکریں مارتے رہے۔
عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ مشتعل ہجوم نے اس شخص کو جلانے سے قبل ہی قتل کر دیا تھا۔ اس پر پتھر بھی برسائے گئے تھے۔
علاقے میں حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کی اضافی نفری بھی تعینات کر دی گئی ہے۔
اس واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز اور تصاویر بھی وائرل ہوئی ہیں جن میں کئی افراد کو اس مقام کی جانب جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جہاں اس شخص کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
بعض ویڈیوز اور تصاویر میں اس مقام کی بھی نشان دہی کی جا رہی ہے جہاں احمد عثمان کو جلایا گیا تھا۔