پاکستان میں ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک آڈیو کی گونج سنائی دے رہی ہے جس میں ،دعوے کے مطابق، پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اپنی بیٹی سے بات کررہے ہیں جو ایک دفتر پر لگا تالا کھلوانے کے عوض سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ کو 5 قیراط ہیرے کی انگوٹھی دینے کی بات کررہی ہیں۔ اس آڈیو کے بارے میں ملک ریاض نے تردیدی بیان جاری کرتے ہوئے اسے فیک قرار دیا ہے لیکن اس آڈیو کی وجہ سے تین دن تک سوشل میڈیا پر سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کے خلاف مہم چلائی جاتی رہی ہے۔
پاکستان میں آڈیو اور ویڈیوز کے ذریعے کسی سیاسی شخصیت کے خلاف مہم چلانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں مریم نواز، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، جج ارشد ملک، عمران خان، صدر عارف علوی اور دیگر سیاسی قائدین کی آڈیو اور ویڈیوز سامنے آتی رہی ہیں۔
بعض سیاست دانوں سے منسوب انتہائی قابل اعتراض ویڈیوز بھی سامنے آئیں جن میں زبیر عمر اور سابق چئیرمین نیب جسٹس جاوید اقبال بھی شامل ہیں۔ ان ویڈیوز کی وجہ سے بعض سیاست دانوں کے بلیک میل ہونے اور اس مواد کے ذریعے ان کی ذمہ داریوں پر اثر انداز ہونے کے الزام بھی عائد کیے گئے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ویڈیوز کون سوشل میڈیا پر لے آتا ہے ؟ کس حد تک ان آڈیوز یا وڈیوز پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے اور کس طرح کے سیاسی فوائد اٹھائے جاتے ہیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنانے والے جج ارشد ملک کا کیس اس حوالے سے ایک اہم کیس ہے جس میں مبینہ طور پر ایک جج کو ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کیا گیا اور مسلم لیگ(ن) کے بیانیے کے مطابق انہیں ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرکے من پسند فیصلہ حاصل کیا گیا۔ اس کے بعد مسلم لیگ(ن) نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا اور اپنے ایک ساتھی ناصر بٹ کے ذریعے ان کی ویڈیوز بنا کر ذاتی حیثیت میں کی گئی گفتگو کو سیاسی طورپر استعمال کیا گیا۔
تجزیہ کار سلمان عابد کہتے ہیں کہ یہ آڈیو اور ویڈیوز باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ریکارڈ کی جاتی ہیں جن کا مقصد دباؤ ڈالنا اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان ویڈیوز کو پراپیگنڈہ کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور انہیں ایک مخصوص وقت پر لیک کیا جاتا ہے۔ ان ویڈیوز اور آڈیوز میں ممکن ہے کہ حقیقت بھی ہو لیکن ان کی ریلیز کی ٹائمنگ ایسی ہوتی ہے جن سے مخصوص سیاسی نتائج حاصل کرنا مقصود ہوتے ہیں۔
سلمان عابد کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر ایسے مواد کو پھیلانے والے کوئی قانونی کارروائی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ کوئی فرانزک آڈٹ نہیں کروایا جاتا۔ ایسے مواد کی کوالٹی یا صحت کے حوالے سے بھی تحقیق نہیں کی جاتی۔ حالیہ دنوں میں ملک ریاض اور آصف زرداری کی آڈیو ٹیپ بھی سامنے آئی۔
ملک ریاض اور عمران خان، دونوں اس آڈیو سے لا تعلقی کا اظہار کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ عرصہ میں بعض فیک اور جعلی مواد بھی سامنے آیا ہے،لیکن جس کے خلاف آتا ہے وہ بھی اور جس کی طرف سے آتا ہے وہ بھی محض کچھ عرصہ کے لیے اس پر بات کرتے ہیں اور اس بات کو دبا دیا جاتا ہے۔ ایک اور بھی ایشو ہے کہ ایک ویڈیو یا آڈیو آنے کے کچھ عرصہ بعد نئی چیز سامنے آتی ہے اور پرانی کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ کئی سیاسی شخصیات سے منسوب ویڈیوز سامنے آئیں جس سے ان کا امیج بری طرح متاثر ہوا لیکن وہ انہوں نے وڈیوز کو جعلی ثابت کرنے کے لیے قانون کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں کو نظر انداز کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، بجائے اس کے کہ ایسی چیزوں پر قانونی کارروائی کرکے بار بار ان کا ذکر کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ آڈیو اور ویڈیو تو پھر بھی کسی حد تک ثبوت ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں روزانہ کی بنیاد پر سیاسی افراد کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی بھی کی جاتی ہے لیکن اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاتا اور سوشل میڈیا پر صرف الزامات کی بنیاد پر ایک دوسرے کی عزتیں اچھال دی جاتی ہیں۔
یہ ویڈیوز بناتا کون ہے؟ اس پر سلمان عابد کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں نے اپنے سیل بنائے ہوئے ہیں، جہاں اس قسم کا مواد محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف تھنک ٹینکس اور اسٹیبلشمنٹ بھی یہ کام کرتی ہے اور ایسے مواد کو کسی مناسب وقت کے لیے محفوظ رکھا جاتا ہے۔
حالیہ عرصہ میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے رانماوں سے منسوب آڈیو اور ویڈیوز جاری کی گئی ہیں۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ کے حوالے سے کئی آڈیوز جاری کی گئی ہیں جن میں سے بیشتر ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوست فرح خان کے حوالے سے تھیں ۔ مریم نواز کی کئی آڈیوز میڈیا کنٹرول کے حوالے سے تھیں۔
ایک وڈیو ایسی بھی وائرل لوئی جس میں بظاہر سابق چئیرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال ایک خاتون کے ساتھ نازیبا گفتگو کررہے ہیں، لیکن اس کی کوئی تحقیق نہ ہوسکی۔
ان تمام ویڈیوز اور آڈیو کا سوشل میڈٰیا پر ہی چرچا رہا جب کہ بہت کم ویڈیوز یا آڈیوز کو مقامی میڈیا پر پذیرائی مل سکی۔
ان آڈیو اور ویڈیوز کے بارے میں بات کرتے ہوئے سینئر صحافی اعزاز سید نے کہا کہ آڈیو اور ویڈیو کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1958 کی فوجی بغاوت بھی اس وقت اسکندر مرزا کی آڈیو ٹیپ کی وجہ سے ہوئی جو ایوب خان کو سنوائی گئی، ان کاموں میں انٹیلی جنس ادارے شامل ہوتے تھے اور پھر بعد میں سیاسی جماعتیں بھی اس میں شامل ہوگئیں اور اپنے دور حکومت میں سیاسی مخالفین کی چیزوں کو مناسب وقت کے لیے استعمال کرتی رہیں۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ عرصہ میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض بھی شامل ہوئے ہیں جن سے منسوب آڈیوز یا وڈیوز منظر عام پر آئی ہیں۔ اعزاز سید کےدعوے کے مطا بق، ملک ریاض خود کئی افراد کی ریکارڈنگ کرتے رہے ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے ایک افسر کرنل خالد کی ویڈیو ریکارڈنگ کی جو انہیں بلیک میل کررہے تھے ۔ ان کی ویڈیو ریکارڈنگ کی گئی۔ بعد میں کئی صحافی ،بیوروکریٹ اور سیاست دان جو ان سے مراعات حاصل کرتے رہے ان کی آڈیو اور ویڈیوز جاری کرکے انہیں کنٹرول کیا گیا۔
اعزاز سید کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں تین آڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں ایک علیم خان اور دو ملک ریاض کی ہیں۔ ان تینوں میں عمران خان کے حوالے سے مواد جاری کیا گیا۔ یہ مواد سیاسی مخالفین کی کمزوریوں کو ظاہر کرنے کے لیے جاری کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب سیاسی مقاصد کے لیے ہیں اور ان کا مقصد کوئی سچ یا حقائق سامنے لانا نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان آڈیوز کو کوئی بھی عدالت میں لیجانے کو تیار نہیں ہوتا۔ عمران خان نے کسی کو بھی عدالت میں لے جانا کا نہیں کہا، اگر ان آڈیوز کا فرانزک کروانا ہو تو پاکستان میں بھی ممکن ہے اور بیرون ملک بھی۔ لیکن متاثرہ فریق اس پر کوئی قانونی کارروائی نہیں کرنا چاہتا۔
اعزاز سید نے کہا کہ ایسا مواد جاری کرنے والوں کے مخصوص ایجنڈے ہوتے ہیں۔ جج ارشد ملک کی دو ویڈیوز تھیں جن میں سے ایک غیر اخلاقی ویڈیو تھی اور ایک ویڈیو میں وہ نواز شریف کے خلاف کیسز کے حوالے سے آگاہ کررہے تھے۔ ان ویڈیوز کے مقاصد ہوتے ہیں اور ان کی ٹائمنگ بھی بہت اہم ہوتی ہے جس پر انہیں ریلیز کرکے فوائد حاصل کیے جاتے ہیں۔