ویب ڈیسک —
میانمار میں فوجی حکومت کی حامی ملیشیا ’’بلڈ کامریڈز‘‘ نے صحافیوں کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے ایسی خبریں دیں جو فوج پر تنقید کے زمرے میں آتی ہوں تو وہ ان صحافیوں اور انکے خاندانوں کو ہلاک کر دیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ وفاداری کا یہ ڈرامائی مظاہرہ صدیوں پرانی ایک ثقافتی روایت کا نتیجہ ہے جس سے متاثر ہو کر فوج کی حامی ملیشیا نے منڈالے شہر میں یہ نام اختیار کیا ہے۔
قبل ازیں 1941 میں میانمار میں نو آبادیاتی دور میں آزادی کی تحریک کے بانیوں نے بھی جن کے گروپ کو ’’تھرٹی کامریڈز‘‘ یعنی تیس ساتھی کہا جاتا تھا۔ ایک دوسرے کے ساتھ وفاداری کو مضبوط بنانے کے لئے چاندی کے ایک پیالے میں بھرا ہوا خون پیا تھا۔ جس میں گروپ کے ہر ممبر کا خون شامل تھا۔
بلڈ کامریڈز کی ان دھمکیوں کو گروپ کے حامیوں نے ٹیلیگرام اور دوسرے پلیٹ فارمز پر شئیر بھی کیا۔
برسر عام دی جانے والی ان دھمکیوں نے جن میں سے انتہائی پرتشدد نوعیت کی دھمکیوں کو سوشل میڈیا سے ہٹا دیا گیا ہے ماحول کی کشید یگی میں اضافہ کیا۔
میانمار کے جلا وطن فری لانس صحافی آنگ نینگ سو نے وائس آف امریکہ کو ایک پیغام میں لکھا کہ یہ میرے ان دوستوں کے لئے جو ابھی ملک کے اندر ہیں۔ اور انکے لئے بھی جو خود تو ملک سے باہر ہیں لیکن انکے خاندان کے لوگ ملک کے اندر ہیں۔ واقعی بہت خطرناک ہے۔
اپریل کے اواخر میں فوج کے حامی ٹیلیگرام اکاؤنٹس پر کہا گیا کہ بلڈ کامریڈز نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی یا این ایل ڈی یا اس کے حامیوں کے خلاف ’’آپریشن ریڈ‘‘ شروع کر رہے ہیں۔
اس گروپ نے کم از کم آٹھ افراد کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری کا دعوی بھی کیا ہے۔اور بعض صورتوں میں تو انہوں نے جائے واردات پر اپنا بیج بھی چھوڑا جس پر ان کا نشان بنا ہوا تھا۔ اور ریڈیو فری ایشیا کے مطابق ہلاک کئے جانے والے این ایل ڈی کے ممبر یا اس کے حامی تھے۔
میانمار میں فوجی حکومت کی حامی ملیشیاؤں کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اور باور کیا جاتا ہے کہ ایسی درجنوں ملیشیائیں ملک میں کام کر رہی ہیں۔ جن میں سے بعض فوج کی منظور کردہ بھی ہیں۔
اور وائس آف امریکہ سے بات کرنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ باور کرتے ہیں کہ بلڈ کامریڈز حکومت سے تعلق رکھتے ہیں۔
تاہم فوج کے ترجمان جنرل زا من ٹن اس کی تردید کرتے ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فوج کا نام نہاد بلڈ کامریڈز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس کو انہوں نے ایک من گھڑت کہانی قرار دیا۔