امریکی وزیر خارجہ، اینٹنی بلنکن نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و تشدد نسل کشی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس اعلان سے ایک طرف تو میانمار کی فوجی جنتا پر بین الاقوامی دباؤ بڑھے گا ساتھ ہی مارشل لا حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا راستہ بھی کھل جائے گا۔
بلنکن نے امریکی ہولوکاسٹ میموریل میوزیم میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکام نے میانمار کی فوج کی جانب سے بڑے پیمانے پر اور منظم مہم کے تحت شہریوں پرکیے گئے مظالم کی مصدقہ گواہیوں کو پرکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔
ہولوکاسٹ یعنی یورپ میں یہودیوں کی نسل کشی کے بعد یہ آٹھویں مرتبہ ہے کہ امریکہ نے کسی جگہ نسل کشی کو تسلیم کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے یوکرین سمیت دنیا بھر میں ہونے والے مظالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کی جانب سے یہ اعلان کس قدر اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ ہم یوکرین کے شہریوں کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ ہمیں دوسری جگہوں پر بھی ان لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے جہاں مظالم ہو رہے ہیں۔
فروری 2021 میں میانمار کی فوج کی جانب سے مارشل لا کے نفاذ کے بعد امریکہ کی جانب سے میانمار جسے برما بھی کہا جاتا ہے، اس کی حکومت پر کثیر الجہتی پابندیاں عائد ہیں۔
فوجی جنتا کے خلاف احتجاج اور مظاہروں میں اب تک ہزاروں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور بہت سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔
میانمار کے خلاف اس نئے اقدام سے وہاں برسرِ اقتدار فوجی حکومت پر زیادہ اثر پڑنے کی توقع نہیں۔ ملک کے مغربی علاقے راخائین میں 2017 سے روہنگیا اقلیت کے خلاف کیے گئے اقدامات پر امریکہ پہلے ہی کئی پابندیاں عائد کر چکا ہے۔
اینٹنی بلنکن نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’جہاں ہم مستقبل میں احتساب کے لیے ڈول ڈال رہے ہیں وہیں ہم کوششیں کر رہے ہیں کہ فوج کو جاری مظالم سے باز رکھا جائے۔ ساتھ ہی ہمیں برما کے شہریوں کی حمایت بھی جاری رکھنی ہے جو اپنے ملک کو واپس جمہوریت کے راستے پر ڈالنا چاہتے ہیں۔‘‘
میانمار کی حکومت پہلے ہی دا ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں افریقی ملک گیمبیا کی طرف سے روہنگیا کے حق میں دائر کردہ مقدمے میں نسل کشی کے الزامات کا سامنا کر رہی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور امریکہ کے قانون ساز پہلے ٹرمپ انتظامیہ اور اب بائیڈن انتظامیہ پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ میانمار کی حکومت کے روہنگیا اقلیت کے خلاف اقدامات کو نسل کشی قرار دیں۔
خیال رہے کہ میانمار بدھ مت ماننے والوں کا اکثریتی ملک ہے جہاں سے 2017 کے بعد سے لگ بھگ آٹھ لاکھ مسلمان ہجرت کرکے بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔