اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان فوج کی جانب سے ایڈووکیٹ ایمان مزاری کے خلاف متنازع بیان پر درج کیا جانے والا مقدمہ خارج کر دیا ہے۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پیر کو ایمان مزاری کی جانب سے مقدمہ خارج کرنے کی درخواست منظور کر لی۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایمان مزاری اپنے کہے الفاظ پر ندامت کا اظہار کر چکی ہیں۔
ایمان مزاری نے گزشتہ ماہ اپنی والدہ اور سابق وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری کی گرفتاری کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پر الزامات عائد کیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ والدہ کے اغوا میں آرمی چیف ملوث ہیں۔
اس بیان پر پاکستان فوج نے اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں فوج کی جیگ برانچ کے لیفٹننٹ کرنل سید ہمایوں افتخار کی مدعیت میں مقدمہ درج کرایا تھا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 21 مئی کی شام اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایمان مزاری نے پاکستانی فوج کی سینئر قیادت (چیف آف آرمی اسٹاف) کے خلاف توہین آمیز کلمات ادا کیے جس کا مقصد فوج کو اشتعال دلانا تھا۔یہ اقدام فوج کے اندر نفرت انگیزی کا باعث بن سکتا تھا جو ایک سنگین جرم ہے۔
پیر کو معاملے کی سماعت ہوئی تو وزارتِ دفاع کے حکام کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔ ایمان مزاری کی وکیل زینب جنجوعہ نے مؤقف اختیار کیا کہ پہلے ہی روز کہہ دیا تھا کہ جو لفظ ادا کیا گیا اس کا کوئی جواز نہیں تھا جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایمان مزاری آفیسر آف کورٹ ہیں انہیں ایسے الفاظ نہیں بولنے چاہیے تھے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ایمان مزاری اپنے بیان پر ندامت کا اظہار کر چکی ہیں اب مزید کیا چاہتے ہیں؟ اس پر وکیل وزارتِ دفاع نے کہا کہ ایمان مزاری باقاعدہ پریس میں اپنے بیان پر معافی مانگیں۔
'ایمان مزاری کا 2017 سے اب تک کا کنڈکٹ بھی دیکھیں'
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایمان مزاری اس عدالت کے سامنے اپنے بیان پر ندامت کا اظہار کر چکی ہیں، اس بیان کا وقت بھی دیکھیں ان کی والدہ کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ ایمان مزاری ہماری بچی کی طرح ہے لیکن ان کا 2017 سے اب تک کا کنڈکٹ بھی دیکھیں۔
واضح رہے کہ ایمان مزاری انسانی حقوق بالخصوص بلوچ طالب علموں کے کیسز میں عدالتوں میں پیش ہوتی رہی ہیں۔ ان کے بعض بیانات پر پاکستان کے ریاستی اداروں کی طرف سے شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔ ماضی میں ایک کیس میں وہ لاپتا شخص کی طرف سے پیش ہوئیں اور ان کی والدہ بطور وزیر انسانی حقوق عدالت میں پیش ہوئی تھیں۔
فوج کے خلاف متنازع بیان کے مقدمے میں ایمان مزاری کی وکیل زینب جنجوعہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ "عدالتی ہدایت پر ہم تحفظات کے باوجود تفتیش کا حصہ بنے، پولیس کو بیان کچھ دے رہے تھے مگر وہ کچھ اور ہی لکھ رہے تھے، ہم نے پولیس کو کہا ہم خود تحریری بیان جمع کرائیں گے، ایمان مزاری خود تحریری بیان دینے پولیس کو فون بھی کرتی رہیں۔ "
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ایمان مزاری کی درخواست منظور کرلی جس کے بعد ان کے خلاف درج مقدمہ خارج کردیا گیا ہے۔
ہم نے توہین آمیز لفظ کے استعمال پر افسوس کا اظہار کیا: وکیل ایمان مزاری
اس کیس کے بارے میں سوشل میڈیا اور مقامی میڈیا پر یہ اطلاعات سامنے آرہی تھیں کہ ایمان مزاری نے عدالت میں غیر مشروط معافی مانگی ہے۔ اس بارے میں ایمان مزاری کی وکیل زینب جنجوعہ ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عدالت میں بھی ہم نے یہی کہا کہ ایمان مزاری نے جو لفظ استعمال کیا اس پر ہمیں' regret' (افسوس)ہے۔
ان کے بقول، "ایمان مزاری کو اپنے الفاظ پر افسوس ہے لیکن اس پر ان کے خلاف کریمنل کیس نہیں بنتا، اسی بنیاد پر ہم نے عدالت میں مقدمہ خارج کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔"
زینب جنجوعہ نے کہا کہ عدالت میں ایمان مزاری کے 2017 سے اب تک کے بیانات کا حوالہ دیا گیا۔ جس پر ہم نے کہا کہ کیا کسی کی انا کی تشفی کے لیے ہمارے خلاف فوجداری کارروائی کا مقدمہ درج کروایا گیا ہے؟اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بھی مقدمہ خارج کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ ایف آئی آر خارج ہونے کے بعد ضمانت کی ضرورت باقی نہیں ہے۔