رسائی کے لنکس

مواد ہٹانے کے حکم پر ٹوئٹر کی بھارتی حکومت کے خلاف عدالت میں اپیل


(ویب ڈیسک) منگل کے روز سوشل میڈیا کمپنی ٹوئٹر نے ایک بھارتی عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ ٹوئٹر سے مواد ہٹانے کے بھارتی حکومت کے چند احکامات پر نظر ثانی کرے۔

اس معاملے سے واقف ذرائع نے خبر رساں ادارے رائیٹرز کو بتایا کہ امریکی کمپنی ٹوئٹر کی جانب سے عدالتی جائزے کا فیصلہ، ٹوئٹر اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے تناو کا حصہ ہے، اور اس عدالتی کشمکش میں ٹوئٹر کی جانب سے بھارتی حکام پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام لگایا گیا ہے۔

گزشتہ سال کے دوران بھارتی حکام نے ٹوئٹر پر سے ایسا مواد ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا، جس میں آزاد سکھ ریاست کا ذکر ہو یا بھارت میں کسانوں کے مظاہروں کے حوالے سے مبینہ طور پر غلط معلومات پھیلائی گئی ہوں اورایسی ٹوئٹس بھی جن میں کووڈ19 وبا سے نمٹنے کی حکومتی کوششوں پر تنقید کی گئی ہو۔

امرتسر میں کسانوں کا بھارتی حکومت کے خلاف مظاہرہ
امرتسر میں کسانوں کا بھارتی حکومت کے خلاف مظاہرہ

رائٹرز کے مطابق بھارت کی آئی ٹی وزارت نے منگل کو ٹوئٹر کے اِس قانونی اقدام کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔

ماضی میں بھی بھارتی حکومت کا موقف رہا ہے کہ ٹوئٹر سمیت سماجی رابطوں کی دیگر بڑی ویب سائٹس نے مواد ہٹانے کی اُن کی درخواستوں پر عمل درآمد نہیں کیا باوجود اس کے کہ وہ قانونی طور پر درست تھیں۔جون کے اختتام پر بھارت کی آئی ٹی وزارت نے ٹوئٹر کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے بھارتی حکومت کی جانب سے مواد ہٹانے کے چند احکامات کی تعمیل نہ کی تو کمپنی کے خلاف فوجداری کارروائی کی جائے گی۔جس پرٹوئٹر نے اس ہفتے عمل درآمد کیا تاکہ وہ مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ کے میزبان کی حیثیت سے اس پر چھپنے والے مواد کی ذمہ داری سے حاصل استثنی سے محروم نہ ہو جائے۔

جنوبی بھارتی ریاست کرناٹکہ کی عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں ٹوئٹر نے موقف اختیار کیا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے مواد ہٹانے کے کچھ احکامات، ہندوستان کے آئی ٹی ایکٹ کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتے۔تاہم ٹوئٹر نے واضع نہیں کہ وہ کن احکامات پر عدالت کی نظر ثانی چاہتا ہے۔

بھارت کا آئی ٹی ایکٹ حکومت کو دیگر وجوہات کے علاوہ قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے ، مواد تک عوامی رسائی کو روکنے کی اجازت دیتا ہے۔

ٹوئٹر نے اپنی درخواست میں یہ دلیل بھی دی کہ کچھ احکامات، مواد کے مصنفین کو پیشگی نوٹس دینے میں ناکام رہے۔ ان میں سیاسی مواد سے متعلق کچھ ٹوئٹس سیاسی جماعتوں کے سرکاری ہینڈلز سے پوسٹ کی گئیں، جس کو بلاک کرنا آزادی اظہار کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

ٹوئٹر اور بھارتی حکومت کے درمیان کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب گزشتہ سال کے اوائل میں ٹوئٹر نے ان اکاؤنٹس اور پوسٹس کو ختم کرنے کے حکم کی مکمل تعمیل کرنے سے انکار کر دیا جن پر نئی دہلی نے کسانوں کے حکومت مخالف مظاہروں کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے کا الزام لگایا تھا ۔اس کے علاوہ بھارت میں ٹوئٹر کمپنی کو پولیس کی تحقیقات کا سامنا بھی رہا ہے جبکہ گزشتہ سال بھارتی حکومت کے متعدد وزرا نے ٹوئٹر پر ملک کے مقامی قوانین کی عدم تعمیل کا الزام لگاتے ہوئے ٹوئٹر کو چھوڑ کر بھار ت میں مقامی طور پر بنائے گئے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ’’کو‘‘ کو جوائن کر لیا تھا۔

بھارت میں ٹوئٹر پر یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ خود اپنی پالیسیوں کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے اس نے بھارتی سیاست دانوں سمیت کئی بااثر افراد کے اکاؤنٹس کو بلاک کیا۔

کمپنیوں کی شفافیت کا جائزہ لینے والی رپورٹس بتاتی ہیں کہ بھارت کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں سوشل میڈیا پر مواد کو ہٹانے کے لیے حکومت کی جانب سےسب سے زیادہ درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔ تاہم بھارت اپنے نئے آئی ٹی قوانین میں کچھ ترامیم پر غور کر رہا ہے، جس میں حکومت کے زیر انتظام ایک ایسا اپیل پینل بنانے کی تجویز بھی شامل ہے، جسے سوشل میڈیا کمپنیز کی جانب سے مواد کے اعتدال سے متلق صادر کئے گئے فیصلوں کو ختم کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔

نئی دہلی نے کہا ہے کہ ایسے اقدامات کی اس لیےضرورت ہے کیونکہ سوشل میڈیا کمپنیز نےبھارتیوں کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔

مارکیٹ ریسرچ فرمز کا کہنا ہے کہ بھارت میں مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ٹوئٹرکے تقریباً 24 ملین صارفین ہیں۔

XS
SM
MD
LG