رسائی کے لنکس

توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی کوششیں؛ کیا پاکستان میں بجلی سستی ہو سکے گی؟


  • مہنگی بجلی کی بدولت نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ صنعت بھی پریشانی کا اظہار کر رہی ہے۔
  • حکومت بجلی کی قیمت میں کمی لانے کے لیے ایک طرف تو آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔ تو دوسری جانب بلوں کی عدم ادائیگی اور لائن لاسز میں کمی لانے کے دعوے کر رہی ہے۔
  • ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اقدامات سے عارضی سہولت تو مل سکتی ہے تاہم یہ توانائی کے شعبے کے مسائل کا دیرپا حل نہیں ہے۔
  • حکومت بخار کی علامات پر تو کام کر رہی ہے تاہم بجلی کے شعبے میں بیماری کی اصل وجوہات سے ابھی بھی نظریں چرائے ہوئے ہے: تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم

اسلام آباد -- پاکستان میں گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی قیمت نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں مہنگی ترین بتائی جاتی ہے جو کہ 13 سینٹ فی یونٹ تک وصول کی جا رہی ہے۔

ملک میں گزشتہ تین، چار برس سے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور یہ گھریلو صارفین کے لیے تقریباً 45 روپے فی یونٹ تک جا پہنچی ہے۔

مہنگی بجلی کی بدولت نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ صنعت بھی پریشانی کا اظہار کر رہی ہے۔

حکومت کے مطابق یہ اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت کیا گیا تاہم اس کے ساتھ کیپسٹی پیمنٹ، بلوں کی عدم ادائیگی اور لائن لاسز کی وجہ سے بجلی صارفین سے بجلی کی کھپت سے زیادہ بل وصول کیا جا رہا ہے۔

رواں ماہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کی قیمت کم نہیں ہو گی تو صنعت، زراعت اور برآمدات میں اضافہ نہیں ہو گا۔

وفاقی وزیرِ توانائی اویس لغاری کہتے ہیں کہ حکومت بجلی کی قیمتوں میں واضح کمی کرنا چاہتی ہے جس کے لیے بجلی کے بلوں میں مختلف ٹیکسوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

اُنہوں نے پارلیمنٹ کی توانائی کمیٹی کو بتایا کہ حکومت توانائی کی قیمت میں کمی لانے پر کام کر رہی ہے اور آئندہ ماہ میں بجلی کی قیمت 10 سے 12 روپے فی یونٹ کم کر سکتے ہیں۔

لائن لاسز میں کمی کے دعوے

حکومت بجلی کی قیمت میں کمی لانے کے لیے ایک طرف تو آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔ تو دوسری جانب بلوں کی عدم ادائیگی اور لائن لاسز میں کمی لانے کے دعوے کر رہی ہے۔

وزارتِ توانائی کے مطابق آئی پی پیز کے ساتھ مشاورت کے بعد ملکی خزانے میں 1100 ارب روپے کی بچت کی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اقدامات سے کچھ وقتی سہولت تو مل سکتی ہے تاہم یہ توانائی کے شعبے کے مسائل کا دیرپا حل نہیں ہے۔

ماہر توانائی ڈاکٹر گلفراز احمد کہتے ہیں کہ حکومت نے بجلی کے ایسے بہت سے منصوبے لگا دیے جن کی نہ تو ضرورت تھی اور نہ ہی ان کی پیدا شدہ بجلی سسٹم میں شامل کی جا سکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بجلی گھروں کی پیدا شدہ بجلی استعمال تو نہیں کی جا سکتی لیکن انہیں قیمت کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ معیشت پر اس بڑے بوجھ کو کم کیا جا سکے تاہم معاہدوں کی موجودگی میں اس معاملے کو حل کرنے میں پیچیدگی کا سامنا ہے۔

'حکومت صرف بخار کی علامات پر کام کر رہی ہے'

فرخ سلیم کہتے ہیں کہ حکومت بخار کی علامات پر تو کام کر رہی ہے تاہم بجلی کے شعبے میں بیماری کی اصل وجوہات سے ابھی بھی نظریں چرائے ہوئے ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت بھی یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ نظرِ ثانی معاہدوں کے نتیجے میں 700 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے اور موجودہ حکومت بھی دعویٰ کرتی ہے کہ اس سے 1100 ارب روپے کی بچت ہو گی۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں عام صارف اور صنعت کو بجلی کی قیمت میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔

فرخ سلیم کے بقول پاکستان کے توانائی کے شعبے کا اصل مسئلہ بجلی کی چوری ہے جو کہ بعض ڈویژن میں 50 فی صد تک ہے ایسے میں حکومت آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرِ ثانی کر کے بخار کو تو ٹھنڈا کر لے گی مگر اصل مرض وہیں رہے گا جو کہ وقت کے ساتھ بڑھتا بھی جائے گا۔

'اصل مسئلہ 2015 کے بعد لگائے گئے بجلی گھر ہیں'

گلفراز احمد کہتے ہیں کہ حکومت پرانے آئی پی پیز کی بات تو کر رہی ہے لیکن توانائی کے شعبے کا اصل مسئلہ 2015 کے بعد لگائے جانے والے منصوبے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت بجلی کے منصوبے تو لگ گئے لیکن صنعتی زون تاحال قائم نہیں ہو سکے ہیں جس کی وجہ سے اس اضافی پیدا شدہ بجلی کا استعمال نہیں ہو سکا ہے۔

گلفراز احمد کے بقول جب تک چین کی حکومت، سرمایہ کار کمپنیاں پاکستان کی حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھتی ہیں اور اس کا کوئی اتفاقِ رائے سے حل نہیں نکالتے یہ مسئلہ ملکی معیشت کو آگے بڑھنے نہیں دے گا۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت لگائے گئے بجلی کے منصوبوں کا بنیادی حل نکالنا ہو گا اور اگر چین کی حکومت اس معاملے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتی ہے تو پاکستان کی حکومت کوئی یک طرفہ اقدام نہیں لے سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی زون پر تیزی سے کام مکمل کر کے بجلی کی اضافی ضرورت پیدا کرے تاکہ پیدا ہونے والی بجلی کو استعمال میں لایا جا سکے۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ وزارتِ توانائی کی جانب سے وفاقی کابینہ کے سامنے مزید 18 آئی پی پیز کے ساتھ نظرِ ثانی شدہ معاہدوں کی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔

فرخ سلیم کے بقول صنعتی صارفین اپنی بجلی کی ضروریات کا کوئی متبادل نہیں کر سکتے ہیں اور پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی صنعت ٹیکسٹائل ہے جس کی 64 فی صد لاگت بجلی کی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب تک حکومت توانائی کی قیمت کو کم نہیں کرتی اس کے معاشی اہداف حاصل نہیں ہو سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے میں جب بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان میں فی یونٹ بجلی کی قیمت پاکستان سے بہت کم ہے تو ہماری صنعت نہیں چل سکے گی۔

فورم

XS
SM
MD
LG