ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی بحرا لکاہل کے خطے کے لئے امریکی حمایت اور مدد میں اضافے کے لیے امریکی صدر کی جانب سے اقدام وہاں کے ان جز ائیر پر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا رد عمل ہے جو تاریخی طور پر مغرب کے زیر اثر رہے ہیں۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بدھ کے روز امریکی اقدامات پر مثبت رد عمل کا اظہار کیا۔ لیکن ساتھ ہی محتاط رہنے کے لئے انتباہ بھی جاری کیا۔
بیجنگ میں معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا کہ ہم یہ دیکھ کر خوش ہیں کہ بحر الکاہل کے جزائر کے ممالک کو ان ممالک سے اپنی تعمیر و ترقی کے لئے زیادہ مدد مل رہی ہے۔ جو یہ مدد کرنا چاہتے ہیں۔ چین کا ہمیشہ سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ ایسا ہونا چاہئیے۔ لیکن اسکے ساتھ ہی ہم سمجھتے ہیں کہ ان تمام ملکوں کو جو جزائر کی مملکتوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ کسی تیسرے فریق کو ہدف نہیں بنانا چاہیے یا ان کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئیے۔
بحرا لکاہل کے مجموعہ جز ائیر پر واقع چھوٹے ممالک جہاں غربت بھی ہے۔ زیادہ تر بڑے ممالک سے مدد اور تجارت پر انحصار کرتے ہیں۔
منگل کے روز وہائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا کہ کہ واشنگٹن بحر الکاہل کے دو ملکوں کریباتی اور ٹونگا میں اپنے سفارت خانے کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے آفس نے کہا کہ وہ کانگریس سے آئندہ ایک عشرے تک ہر سال ساٹھ ملین ڈالر کی کی رقم اس سلسلے میں مختص کرنے کی درخواست کرنے کے لیے تیار ہے۔
یہ رقم اس سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے جو اسوقت ان ملکوں کی بحری اقتصادیات کی ترقی میں مدد دینے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔
وہائٹ ہاؤس امریکی پیس کور بھی فیجی۔ ٹونگا۔ ساموا اور واناواتو بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اور اسکے لئے وہ فیجی میں بحرالکاہل کے واسطے بین الاقوامی ترقی کے لئے امریکی ادارے کے علاقائی مشن کو دوبارہ کھولنے کی جانب پیش رفت کا حوالہ دیتا ہے۔
امریکہ کی نائب صدر کاملا ہیرس نے ان نئے اقدامات کے اعلان کے لئے بدھ کے روز فیجی کے مقام سووا میں پیسفک آئیلینڈز فورم میں بحرالکاہل کے ملکوں کے رہنماؤں سے ورچول ملاقات کی۔ اور بائیڈن حکومت کے مطابق ان اقدامات سے خطے کے ساتھ امریکہ کی ساجھے داری اور مستحکم ہو گی۔ یہ فورم اکیاون برس پرانا اقتصادی اور فوجی بلاک ہے۔ جس میں اٹھارہ ملک شامل ہیں ۔
چینی اثر و رسوخ
بیجنگ نے جنوبی بحرالکاہل کے بارے میں اپنے عزائم کا اشارہ اس وقت دیا جب اس نے دو ہزار چھ میں آئیلینڈ ممالک کے اقتصادی اور تعاون فورم کا آغاز کیا۔ چین اس فورم کو جس کے تین اجلاس ہو چکے ہیں۔ جنوبی بحرالکاہل کے ساتھ اپنے اعلی ترین تجارتی اور اقتصادی مذاکرات قرار دیتا ہے۔
ماہرین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ برس کے دوران چین نے خطے میں اپنی بڑھتی ہوئی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ جہاں وہ اپنا بحری اثر و رسوخ بڑھانے اور پرانے تجارتی مفادات خاص طور سے ماہی گیری کے شعبے میں مفادات کو فروغ دینے کے لئے کوشاں ہے۔
بیجنگ نے سولومن جزائیر کے ساتھ اپریل میں ایک سیکیورٹی معاہدے پر بھی دسخط کئے ہیں۔اور مئی اور جون میں اپنے وزیر خارجہ کی جنوبی بحرالکاہل کے سترہ ملکوں کے لیڈروں کے ساتھ بات چیت کے بعد اس نے تعاون کے 17 معاہدے بھی کئے ہیں۔
پرانا اور نیا امریکی کردار
واشنگٹن دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی سے جنوبی بحرالکاہل کے خطے پر اثرورسوخ رکھتا ہے۔ وہاں کے کچھ جزائیر امریکی علاقے ہیں۔ اور دوسرے قریبی امریکی اتحادی ہیں۔ امریکہ نے 1946 سے1958 کے دوران مارشل آئی لینڈز پر 67 نیوکلیر ٹیسٹ کئے ہیں۔ جنکے اثرات پورے ملک پر محسوس کئے گئے۔
ہونو لولو میں ایسٹ ویسٹ سینٹر ریسرچ آرگنائیزیشن کے نائب صدر ساٹو لیمائے کا کہنا ہے کہ چین اور امریکہ کے اقدامات سے جنوبی بحرالکاہل کے ملکوں کو کوئی سیاسی خطرہ مول لئے بغیر فائدہ پہنچے گا۔