پاکستان اور افغانستان نے باہمی تجارتی و اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے سرحد کے آر پار آمد و رفت کو سہل بنانے سمیت متعدد مشترکہ اقدامات پر اتفاق کیا ہے۔یہ اتفاق رائے ایسے وقت میں ہوا ہے جب کاروباری برادری باہمی تجارت کے فروغ کے لیے حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر زور دے رہی ہے۔
جنوبی ایشیا کے دو پڑوسی ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے پاکستان کے سیکریٹری تجارت صالح احمد فاروقی کی سربراہی میں وفد نے کابل کا دورہ کیا۔دونوں ممالک کی متعلقہ وزارتوں کے نمائندوں پر مشتمل وفود کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں ٹرانزٹ، ٹرانسپورٹ سہولیات اور سرحدی گذرگاہوں پر اقدامات کے حوالے سے امور پر غور کیا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ پشاور سے جلال آباد اور کوئٹہ سے قندھار کے درمیان بس سروس شروع کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے جس کا آغاز رواں سال اگست کے آخر میں کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ طالبان اگست 2021 میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں برسرِ اقتدار آئے تھے۔ البتہ طالبان کی حکومت کو تاحال کسی ملک نے بھی تسلیم نہیں کیا۔ عالمی برادری طالبان سے انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق پر عمل در آمد کا مطالبہ کر رہی ہے۔
بدھ کو دورے کے اختتام پر کابل میں پاکستان کے سفارت خانے کے جاری کردہ بیان کے مطابق رواں سال میں افغانستان کے ساتھ دو طرفہ اور ٹرانزٹ ٹریڈ میں اضافہ ہوا ہے۔
دونوں ممالک کے وفود میں مذاکرات میں تاجروں کو دو طرفہ اور ٹرانزٹ ٹریڈ میں در پیش مسائل کے حل کے لیے مناسب اقدامات کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔گزشتہ ماہ ہی پاکستان نے افغان شہریوں اور ٹرک ڈرائیورز کے لیے ویزا پالیسی میں نرمی کا فیصلہ کیا تھا۔
پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ چیمبر آف کامرس کے چیئرمین زبیر موتی والا دورے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومتی وفود کے تبادلے سے کاروبار میں بہتری اور مشکلات میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے تاجروں کو سرحدی گزرگاہوں اور کسٹم کے بہت سے مسائل کا سامنا رہتا ہے، جنہیں دور کرکے دوطرفہ تجارت میں خاطرخواہ اضافہ ممکن ہے۔
زبیر موتی والا کہتے ہیں کہ ٹرانزٹ ٹریڈ کو فروغ دینا اچھاہے البتہ اس کے ساتھ ساتھ دوطرفہ تجارت کے لیے الگ سے اقدامات کرنا بھی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرحدی گزرگاہوں پر دوطرفہ تجارت میں امتیاز نہ ہونے کے سبب بہت سی جلد خراب ہونے والی اور کھانے پینے کی اشیا ٹرانزٹ ٹریڈ کے سبب پھنس جاتی ہیں اور تاجروں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو تجارت کے ٹرکوں کی آزادانہ نقل و حمل کے معاہدے ٹی اے ڈی پر عمل درآمد میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور اگر اس معاہدے پر کسی قسم کی مشکلات ہیں تو اس پر نظرِ ثانی کی جانی چاہیے۔
اسلام آباد کے وفد کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان میں توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے افغانستان سے کوئلہ درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔وزیرِ اعظم شہباز شریف نے گزشتہ ماہ متعلقہ حکام کو ہدایت کی تھی کہ بجلی کی پیداوار کے لیےپڑوسی ملک سے کوئلہ کی ترسیل کے جلد از جلد آغاز کے لیے تمام مراحل طے کیے جائیں۔
زبیر ماتی والا کہتے ہیں کہ افغانستان سے درآمد کیے جانے والے کوئلے میں حالیہ عرصے میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے دوطرفہ تجارت کا توازن افغانستان کے حق میں چلا گیا ہے جو کہ ماضی میں پاکستان کے حق میں رہا کرتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اس کی وجہ عالمی منڈی میں کوئلہ کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں جس کو دیکھتے ہوئے افغان حکومت نے بھی کوئلہ کی قیمت رواں ہفتے 198 ڈالر سے بڑھا کر 280 ڈالر فی ٹن کر دی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں کسٹم ڈیوٹیز کے حوالے سے مشترکہ طور پر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ کسی قسم کی مشکل صورتِ حال پیدا نہ ہو۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کو دوطرفہ تجارت مقامی کرنسی میں ہی کرنا چاہیے جو کہ تاجروں کے لیے بھی مفید رہے گی۔
روس یوکرین جنگ کے سبب دنیا بھر میں پیٹرولیم مصنوعات کی قلت پیدا ہوئی ہے، جس کےباعث اس کی قیمتوں میں خاصی حد تک اضافہ ہوا ہے۔
پاکستانی وفد کے دورے کے اختتام پر جاری بیان کے مطابق دونوں ممالک نے تجارت اور ٹرانزٹ ٹریفک کی جلد کلیئرنس کو یقینی بنانے کے لیے رکاوٹوں کو ترجیحی بنیادوں پر دور کرتے ہوئے سرحدی کراسنگ پوائنٹس کو مزید مؤثر بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ فریقین نے ٹی اے ڈی معاہدے کو نافذ کرنے پر اتفاق کیا جس سے دو طرفہ تجارتی ٹرکوں کی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہوگی اور سرحدی کراسنگ پوائنٹس پر سامان کی لوڈنگ اور ان لوڈنگ کو ختم کیا جائے گا۔
دونوں اطراف کے متعلقہ حکام نے تمام سرحدی گزرگاہوں بالخصوص طورخم، غلام خان اور چمن اسپن بولدک پر کام کے اوقات کار بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔یہ بھی اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک کے کسٹم کے محکموں کے سربراہان سامان کی کلیئرنس میں بہتری لانے کے لیے مشترکہ کسٹم طریقۂ کار اور نظام کو ترتیب دیں گے۔