رسائی کے لنکس

طالبان کے کابل پر قبضے کے ایک سال کا ایک جائزہ


طالبان اقتدار میں اپنا ایک سال مکمل ہونے پر قحط سالی، کرونا وائرس کی وبا اور اپنی پیش رو حکومت ہی کے دور سے بڑھتی ہوئی بے یقینی کی صورت حال میں معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن یہ کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔

مغربی ممالک کی حمایت یافتہ اشرف غنی کی حکومت ختم ہونے سے پہلے 21-2020 کے مالی سال میں اخراجات کا 75 فی صد ان ساڑھے پانچ ارب ڈالر سے پورا کیا گیا تھا جو غیر ملکی امداد کی مد میں افغانستان کو ملے تھے۔ لیکن افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد سویلین اور دفاعی شعبوں کے لیے ملنے والی بین الاقوامی امداد کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور کابل کے نئے حکمرانوں پر پابندیاں بھی عائد کردی گئیں۔

افغانستان کے غیر ملکی ذخائر کا بیشتر حصہ امریکہ کی تحویل میں ہے۔ امریکہ نے کابل کے مرکزی بینک کے سات ارب ڈالر منجمد کردیے ہیں اور اس رقم کے اجرا کو ملک میں خواتین کے حقوق کی صورتِ حال میں بہتری اور افغانستان کے نسلی و لسانی گروہوں کی نمائندگی پر مشتمل شمولیتی حکومت کی تشکیل سے مشروط کردیا ہے۔

طالبان اور دیگر کئی ممالک افغانستان کے ان اثاثوں کے اجرا کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ تاہم افغانستان کے عوام کی براہ راست امداد اور بالخصوص غذائی بحران اور قدرتی آفات کے متاثرین کی مشکلات کم کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

غذائی قلت سے دوچار افغانستان کی آبادی تیزی سے بڑھتے ہوئے 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً تین کروڑ 89 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔

یو ایس ایڈ اور دیگر بین الاقوامی ڈونرز افغانستان میں صحتِ عامہ کے نظام کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے قلیل مدتی سطح پر مالی وسائل کے خلا کو پر کررہے ہیں۔

انسانی بہبود کی سرگرمیوں سے متعلق اقوامِ متحدہ کے آفس فور کوآرڈنیشن آف ہیومینیٹیریئن افیئرز کے مطابق 2021 میں بین الاقوامی عطیات دہندگان نے افغانستان کی انسانی بنیادوں پر امداد کے لیے 1.67 ارب ڈالر کے فنڈز فراہم کیے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ رقم ساڑھے 42 کروڑ ڈالر امریکہ نے دیے تھے۔ جنوری 2022 میں وائٹ ہاؤس نے 30 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی اضافی امداد دینے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم بعض ماہرین کے مطابق طالبان ریونیو جمع کرنے میں اپنی حیران کن طور مہارت دکھانے میں کامیاب رہے ہیں۔ دسمبر 2021 سے جون 2022 تک طالبان نے 84 کروڑ ڈالر کا ریونیو جمع کیا ہے۔ اس میں سے 56 فی صد کسٹمز ریونیو سے حاصل کیے گئے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو کوئلے اور پھلوں کی برآمد سے بھی آمدن حاصل کی گئی۔

اقتصادی امور کے جریدے ’دی اکانومسٹ‘ کے مطابق گزشتہ 25 برس سے افغانستان کی غیر قانونی معیشت پر تحقیق کرنے والے ڈیوڈ مینز فیلڈ کا اندازہ ہے کہ منشیات کی تجارت پر ٹیکس سے طالبان نے سالانہ ساڑھے 27 کروڑ ڈالر سے 35 کروڑ ڈالر تک آمدن حاصل کی ہے۔

اس کے علاوہ مرکزی شاہراہوں پر چوکیاں قائم کرکے طالبان جنگجوؤں نے خوراک اور ایندھن لے جانے والی گاڑیوں سے چنگی وصول کرکے ساڑھے 24 کروڑ ڈالر کی آمدن حاصل کی۔ آمدن کے لیے طالبان کی ان کوششوں کا نتیجہ ہے کہ 23-2022 کے جاری مالی سال میں طالبان نے 2.6 ارب ڈالر کا بجٹ پیش کیا ہے۔

طالبان حکومت اور تعلیم

اگرچہ امریکہ اور طالبان حکام کے درمیان افغانستان کے منجمد اربوں ڈالر کو ٹرسٹ کی صورت میں جاری کرنے کے لیے متعدد تجاویز کا تبادلہ ہوا ہے۔ لیکن دونوں جانب ان تجاویز پر غیر معمولی اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ اس میں اختلاف کا ایک مرکزی نکتہ یہ ہے کہ طالبان افغان شہریوں کے تعلیم اور آزادیٔ اظہار کے حقوق کو اسلامی قوانین کی حدود سے مشروط کرتے ہیں۔

طالبان کے اقتدار میں آںے کے بعد افغانستان میں خواتین کے حقوق سے متعلق عالمی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ کیوں کہ ان کا اصرار رہا ہے کہ ان کی قائم کردہ امارات اسلامیہ میں خواتین کو شریعت کے دائرہ کار میں حقوق دیے جائیں گے۔

طالبان کی وزارتِ تعلیم نے وعدہ کیا تھا کہ ساتویں سے بارہویں جماعت تک لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول مارچ 2022 تک دوبارہ کھول دیے جائیں گے۔ لیکن 23 مارچ کو اچانک طالبان نے اس بارے میں مؤقف تبدیل کرکے اعلان کیا کہ لڑکے اور لڑکیوں کی علیحدہ تدریس کے انتظامات کے اضافی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور اس کے بعد یہ فیصلہ مؤخر کر دیا گیا۔

تاحال افغانستان کے اکثر وبیش تر حصوں میں لڑکیوں کے اسکول فیصلے کے منتظر ہیں جب کہ لڑکوں کے اسکولوں میں صدر اشرف غنی کی حکومت ختم ہونے کے فوری بعد ہی سے تعلیم شروع ہوگئی تھی۔

تاہم بعض خاندان ان حالات میں بھی اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنے کا بندوبست کررہے ہیں۔ کابل میں تو لڑکیوں کے ہائی اسکول طالبات کو واپس بھیج رہے ہیں لیکن شمالی افغانستان میں قندوز اور مزارِ شریف کے مختلف شہروں میں موسم بہار کے سیمسٹر کا آغاز کردیا گیا تھا۔

صوبہ غزنی میں نوآباد سے اطلاعات ہیں کہ سوئیڈن کی این جی او سوئیڈش کمیٹی فور افغانستان (ایس سی اے) کی مدد سے چلنے والے اسکولوں میں بھی تعلیم کا آغاز ہوچکا ہے۔

اس کے علاوہ انفرادی طور پر طالبان حکومت کی اس پابندی کے برخلاف لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ سماجی کارکن پشتانہ درانی کے خفیہ اسکول بھی انہی کاوشوں کا حصہ ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ مختلف علاقوں میں چار کلاسوں کی 400 بچیوں کو دو زبانوں میں تعلیم دے رہی ہیں۔

حکومتی پابندیوں کی ان خلاف ورزیوں سے مبصرین یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ نئی حکومت پالیسی سازی کے بارے میں ڈانواں ڈول ہے اور کلیدی امور پر یکساں پالیسی بنانے میں اسے مشکلات درپیش ہیں۔ اس کے علاوہ بعض مبصرین اسے طالبان کی قیادت میں اختلافات سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔

اس سے پہلے جب 1996 میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تھی تو اس وقت اسکولوں میں پانچ ہزار لڑکیاں داخل تھیں۔ 2018 تک یہ تعداد 38 لاکھ ہوچکی تھی۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق تعلیم کے شعبے میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہی تھیں۔

میڈیا اور دیگر شعبوں کی صورتِ حال

اقتدار پر قبضے کے بعد طالبان نے اگست 2021 میں اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ ’آزاد اور خود مختار‘ میڈیا کا خیر مقدم کریں گے۔

لیکن اس کے بعد آنے والے مہینوں میں طالبان نے میڈیا کے لیے کئی ہدایت نامے جاری کیے جنہیں ناقدین سنسر شپ کے مترادف قرار دیتے ہیں۔

سرکاری میڈیا میں خواتین صحافیوں کے کام کرنے پر پابندی عائد ہے۔ نجی میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کو اسکرین پر آنے کی صورت میں چہرہ ڈھانپنے کا پابند کیا گیا ہے۔ بعض صوبوں میں صحافیوں کو رپورٹنگ کے لیے مقامی حکام سے پیشگی اجازت لینا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا کمپنیوں کو موسیقی اور تفریحی پروگرام نشر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اشتہارات سے ان کے آمدن کے ذرائع بھی منقطع کردیے گئے ہیں جس کی وجہ سے کئی ادارے بند ہوچکے ہیں۔

صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی جاری کردہ آزادیٔ صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں افغانستان تنزلی کے بعد 156 ویں نمبرپر آگیا ہے۔ تنظیم کے مطابق طالبان کی حکومت میں واپسی کے بعد آزادیٔ اظہار، صحافیوں اور بالخصوص خواتین صحافیوں کو سنجیدہ خطرات درپیش ہیں۔

میڈیا پرعائد پابندیوں کے علاوہ مارچ میں ہونے والی ایک تین روزہ کانفرنس میں طالبان قیادت نے سرکاری ملازمت کرنے والے مرد حضرات پر داڑھی رکھنے اور اسلامی لباس پہننے کی پابندی عائد کردی ہے۔ شہروں کے پارکس میں صنفی طور پر علیحدگی، خواتین کے بغیر محرم کے سفر نہ کرنے جیسی پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔ طالبان نے غیر اسلامی قرار دے کر دکان داروں کو ملبوسات کی نمائش کے لیے استعمال ہونے والے پتلوں کے سر ہٹانے کا حکم بھی جاری کیا۔

 کہانی طالبان کے افغانستان کی
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:04 0:00

طالبان کی وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ایک صوبائی شاخ نے بلخ اور ہرات کے صوبوں میں خواتین کے عوامی حماموں پر پابندی عائد کردی تھی۔ ان صوبوں کی زیادہ تر خواتین کو غسل کے لیے ان حماموں ہی میں جانا پڑتا تھا۔

خارجہ امور اور داخلی سیکیورٹی

داخلی طور پر طالبان کو اسلامک اسٹیٹ خراسان اور القاعدہ کی صورت سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے۔

طالبان کے اقتدار میں آںے کے بعد افغانستان میں بم دھماکوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔ اپریل میں ایک اسکول میں ہونے والے دھماکے میں چھ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ مئی 2022 میں سلسلہ وار بم حملے ہوئے تھے جن میں سے بعض کی ذمے داری اسلامک اسٹیٹ نے تسلیم کی تھی۔

رواں برس جون میں کابل کے ایک گردوارے کو نشانہ بنایا گیا جس میں دو افراد ہلاک اور سات زخمی ہوئے تھے۔ جولائی میں کابل میں ایک کرکٹ میچ کے دوران ہونے والے دھماکے میں دو افرد کی جانیں گئی تھیں۔

بین الاقوامی تعلقات کی بات کی جائے تو طالبان کی حکومت کو تاحال کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ البتہ طالبان قیادت کو ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کانفرنس میں یورپی یونین، امریکہ اور اقوام متحدہ سمیت دیگر 30 ممالک کے مندوبین نے شرکت کی تھی۔

مغربی ممالک کی حکومتوں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ افغانستان میں ایک نمائندہ حکومت کےقیام اور خواتین کے حقوق کی صورت حال میں بہتری کے بعد ہی طالبان کی حکومت کی قانونی حیثیت تسلیم کرنے پر کوئی پیش رفت ممکن ہے۔

چین نے طالبان قیادت سے براہِ راست روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں اور دونوں جانب کے نمائندگان متعدد مواقع پر دو طرفہ اور بین الاقوامی فورمز پر ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں افغانستان کے اندر تعمیر نو کے منصوبے بھی زیرِ بحث آتے رہے ہیں۔

افغانستان ایک سال بعد کہاں کھڑا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:31 0:00

اس کے علاوہ چین خطے کے ممالک اور بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ افغانستان کے امور پر کئی بین الاقوامی ، کثیر قومی اور دو طرفہ فورمز پر مذاکرات میں متحرک نظر آتا ہے۔

آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک جیسی بین الاقوامی تنظیمیں افغانستان میں تاریخی مقامات، پارکس اور دیگر تعمیرات کی بحالی اور بہتری کے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

(یہ تحریر وائس آف امریکہ پر شائع ہونے والی رپورٹ سے ترجمہ کی گئی ہے)

XS
SM
MD
LG