امریکہ کی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کو ذات پات سے متعلق بھارت کی قدیم ہندو روایات کا سامنا ہےاور ایپل وہ پہلی کمپنی ہے جو ذات پات کی تفریق کے خلاف پالیسیاں متعارف کروا رہی ہے۔
دنیا کی ایک بڑی ڈیجیٹل کمپنی ایپل نے دو برس قبل اپنے ملازمین کے طرز عمل کی پالیسی میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق کی سختی سے ممانعت کر دی تھی۔ اس فہرست میں نسل، مذہب، جنس، عمر اور قومیت کی بنیاد پر تفریق یا امتیاز برتنا پہلے ہی ممنوع ہے۔
یہ پہلی بار ہے کہ امریکہ میں کسی کمپنی نے ذات پات کی تفریق کو باضابطہ طور پر ممنوع قرار دیا ہے۔ امریکہ کے تفریق سے متعلق قوانین میں بھی ذات پات کا ذکر نہیں ہے۔
کمپنی کی جانب سے یہ پالیسی ایک ایسے وقت متعارف کروائی گئی جب جون 2020 میں کیلیفورنیا کے ملازمین کی بہبود کسے متعلق ایک ادارے نے سسکو سسٹمز پر ایک نیچی ذات سے تعلق رکھنے والے سافٹ وئیر انجنئیر کی مدعیت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ جس کا کہنا تھا کہ اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے دو افسران نے اس کے کرئیر کو نقصان پہنچایا تھا۔
سسکو نے ان الزامات سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ اندرونی طور پر تفتیش کے دوران تفریق کے ثبوت نہیں ملے تھے۔ سسکو کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں کیونکہ ذات پات کا معاملہ کیلیفورنیا میں قانون کے دائرے میں نہیں آتا۔
اس ماہ ایک اپیل پینل نے اس کیس کا نجی طور پر تصفیہ کرنے کا مطالبہ رد کر دیا۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امکان یہ ہے کہ اگلے برس تک یہ معاملہ عوامی عدالت میں سنا جائے گا۔
اس تنازع کے بعد امریکہ کے بڑے ٹیک ادارے، بھارت میں ہزاروں برس سے جاری ذات پات کے مسئلے کی جانب توجہ دے رہے ہیں۔
اس مقدمے کے بعد انسانی حقوق کے بہت سے کارکن اور ملازمین امریکہ میں تفریق سے متعلق قوانین کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ کارکن ٹیکنالوجی کے بڑے اداروں سے بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ذات پات کی بنیاد پر تفریق کے خلاف پالیسیاں متعارف کروائیں اور قانون میں موجود خلا کو پر کریں۔
رائٹرز کے مطابق امریکہ کے ٹیکنالوجی کے بڑے اداروں کی پالیسیوں کےجائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ادارے، جو بھارت سے ہزاروں ملازمین کو بھرتی کرتے ہیں، ابھی تک اس سلسلے میں خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھا سکے۔
یونی ورسٹی آف ساؤتھ کیرولینا کے پروفیسر کیون براؤن کا کہنا ہےکہ وہ اس رپورٹ پر حیران نہیں ہیں کیونکہ اس معاملے پر ابھی تک امریکہ کا قانون واضح نہیں ہے۔
کیون ذات پات کے معاملات پر تحقیق کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میرے خیال میں ان اداروں میں ایک طرف کے لوگ کہتے ہوں گے کہ یہ اقدام درست لگتا ہے، جب کہ دوسری جانب کے لوگ کہتے ہوں گے کہ کوئی موقف لینا ضروری نہیں ہے۔‘‘
ایپل کے کام کی جگہ پر طرز عمل کی پالیسی میں ، جس کا رائٹرز نے مشاہدہ کیا ہے، ستمبر 2020 کے بعد تبدیل کر کے ذات پات کی تفریق کی ممانعت کو بھی دوسری شقوں کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ آئی بی ایم کمپنی نے رائٹرز کو بتایا کہ سسکو پر ہونے والے ہرجانے کے مقدمے کے بعد کمپنی نے بھارت سے متعلق اپنی پالیسیوں میں ذات پات کی تفریق کو بھی ممنوع قرار دے دیاہے۔ کمپنی کے مطابق کمپنی کی واحد ٹریننگ جس میں ذات پات کاحوالہ آتا ہے اس کے بھارتی عہدے داروں کے لیے ہے۔
کئی کمپنیوں نے ابھی تک ذات پات کی بنیاد پر تفریق کی ممانعت کو اپنی پالیسیوں کا حصہ نہیں بنایا ہے۔
رائٹرز کے مطابق ان میں ایمازون، ڈیل، فیس بک کی مالک کمپنی میٹا، مائیکروسافٹ، اور گوگل شامل ہیں۔
ان تمام کمپنیوں نے رائٹرز کو بتایا کہ ان کے ہاں ذات پات کی بنیاد پر تفریق کو بالکل برداشت نہیں کیا جاتا۔ ان میں میٹا نے وضاحت کیے بغیر بتایا کہ اس قسم کی تفریق کا تعلق پہلے سے موجود قومیت کی بنیاد پر تفریق سے ہے۔
رائٹرز نے امریکہ میں موجود ، بھارت کے دلت ذات سے تعلق رکھنے والے دو درجن سے زیادہ ملازمین سے گفتگو کی جن کا کہنا تھا کہ ذات پات کی بنیاد پر تفریق نے سات سمندر پار بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔
ان کایہ بھی کہنا ہے کہ ذات پات کی علامات کی وجہ سے، جن میں ان کے نام، آبائی علاقے، کھانے پینے کی عادات اور مذہبی رسم و رواج شامل ہیں۔ ان کے کئی ساتھی ملازمت، ترقی حتی کہ سماجی لحاظ سے بھی ان سے آگے نکل گئے ہیں۔
رائٹرز ان افراد کے دعوؤں کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں کر سکا۔ ان افراد نے نام نہ بتانے کی شرط پر ادارے سے بات کی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ذات پات کی وجہ سے اپنی ملازمتیں چھوڑنا پڑی ہیں۔
نچلی ذات کے افراد کے لیے کام کرنے والی، مایوری راجا، گوگل کے لیے سافٹ وئیر انجنئیر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ وہ گوگل کی مالک کمپنی الفابیٹ کی ورکر ز یونین سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں بڑی حد تک ذات پات کی تفریق پائی جاتی ہے۔
اب تک گوگل کے 16 سو سے زائد ملازمین یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ دفتری طرز عمل کے قوانین میں ذات پات سے متعلق ضابطوں کا اضافہ کیا جائے۔ ان ملازمین کی جانب سے یہ مطالبہ گوگل کے سی ای او سندر پچائی سے بذریعہ ای میل کیا گیا۔ رائٹرز نے اس ای میل کو دیکھا ہے۔
رائٹرز سے بات کرتے ہوئے ملازمت کے امور کے تین قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت سی کمپنیاں قانون میں موجود مندرجات سے بڑھ کر پالیسیاں بنانا نہیں چاہتی ہیں۔
کورے بلوت، جن کا تعلق گوڈون پراکٹر سے ہے کا کہنا تھا کہ اکثر کمپنیاں ان قوانین کا سہارا لیتی ہیں جو وفاقی اور ریاستوں کی سطح پر موجود ہیں۔
کچھ کمپنیوں نے محدود پیمانے پر ممانعت شروع کی ہے۔
مثال کے طور پر ڈیل کی سوشل میڈیا پالیسی میں اس معاملے کی سختی سے ممانعت ہے۔ اسی طرح ایمازون اور گوگل نے بھی بعض جگہوں پر ذات پات کی تفریق کو ممنوع قرار دیا ہے۔
دونوں کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھارت سے کی جانے والی بھرتیوں میں تعصب کے خلاف تربیت میں ذات پات کی تفریق کو بھی شامل کر دیا ہے۔
سان فرانسسکو کے ڈھلوں لا گروپ سے تعلق رکھنے والے ملازمت کے امور کے وکیل جان پال سنگھ ڈھلوں کا کہنا تھا کہ تربیتی کورسز میں ان معاملات کا ذکر صرف دکھاوےلیے ہی ہوسکتا ہے کیونکہ ان کا قانونی طور پر کوئی ذکر نہیں ہے۔
ملازمین کو ٹریننگ دینے والی کمپنی ایمٹرین کی سی ای او جینین یانسی نے رائٹرز کو بتایا کہ کوئی بھی کمپنی نہیں چاہتی کہ اس کے ملازمین اسے چھوڑ کر جائیں۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی درست ہے کہ ذات پات کی تفریق کا کھل کر ذکر کرنے سے ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کو ملنے والی شکایات میں اضافہ ہوگا۔
کیون براؤن کے نزدیک اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اس مسئلے کا کوئی فوری حل نکلے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ آخر کار اس کا فیصلہ عدالتیں ہی کریں گی۔