آب و ہوا کی عالمی تبدیلیوں کا باعث بننے والے عوامل میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود یہ دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
سن 2010 کے بعد حال ہی میں ملک میں آنے والے شدیدترین سیلاب کی وجہ سے پاکستان کو شدید انسانی بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے لگ بھگ تین کروڑ 30 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ 1300 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ار بوں ڈالر کا بنیادی دھانچہ تباہ ہو چکا ہے ۔
ایک دہائی سے کچھ زائد عرصے کے دوران دوسری بار 2022 میں پاکستان میں آنے والے شدید ترین سیلاب کی وجہ سے ملک کو شدیدترین انسانی بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ ماہرین آب و ہوا تبدیلی کو قرار دیتے ہیں۔
لیکن اب یہ سوال زیر بحث ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلیوں کا باعث بننے والے عوامل بشمول گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہایت ہی کم ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کیوں ان تبدیلوں سے شدید متاثر ہورہا ہے؟
گرین ہاؤس گیسز بشمول کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹرس آکسائیڈ , میتھین ہوا میں جذب ہو کر سورج کی تیز شعاعوں کو روکنے میں مدد دینے والی اوزون تہہ کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہیں، جس کی وجہ سے زمین کا درجۂ حرارت بڑھتا ہے۔موسمیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع، ملک کے شما ل میں تیزی سے پگھلتے گلیشیئر ز، بغیر منصوبہ بندی کے پھیلتے ہوئے شہر اور شہروں کی طرف آباد ی کی نقل مکانی میں اضافہ ان وجوہات میں شامل ہے۔
پانی کی گزرگاہوں میں رکاوٹوں کے علاوہ کئی دیگر مقامی عوامل ہیں جو آب و ہوا کی عالمی تبدیلیوں کے اثرات کو پاکستان کے لیے شدید تر اور خطرناک بنا رہے ہیں۔
ماہرِ موسمیات ڈاکٹر حنیف کہتے ہیں کہ پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں میں ہو ا کا کم دباؤ مون سون کی بارشوں کا باعث بنتا ہے۔
اُن کے بقول رواں برس اپریل، مئی میں پاکستان میں درجۂ حرارت میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے ہوا کا یہ دباؤ نہایت کم ہو کر بلوچستان منتقل ہو گیا جس کی وجہ سے مون سون بارشوں کی معمول کی ترتیب بدل گئی۔ اُن کے بقول بالائی علاقوں کے برعکس بلوچستان، جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ میں مون سون کے بادل رواں برس جم کر برسے۔
عمومی طور پر مغرب سے آنے والی سرد ہوائیں افغانستان اور ایران کے شمالی علاقوں کے اوپر سے گزر جاتی ہیں لیکن محمد حنیف کہتے ہیں کہ اس بار پاکستان میں شدید گرمی کی لہر کی وجہ سے ملک کے جنوبی وسطی علاقوں اور بلوچستان میں پیدا ہونے ہونے والے ہوا کے کم دباؤ نے ان سرد ہواؤں کو بھی اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔
اُن کے بقول دوسری جانب اس میں خلیج بنگال اور بحیرہ عرب سے آنے والی مرطوب ہوائیں بھی شامل ہو گئیں جس کی وجہ سے غیر معمولی مون سون کی بارشیں بلوچستان کے 70 فی صد علاقے اور ملک کے کئی دیگر علاقوں تک پھیل گئیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ شمال میں صو بہ خیبر پختونخوا کے مالا کنڈ اور سوات کے علاقوں میں سیلاب کی وجوہات کچھ مختلف ہیں، جہاں بادل ا ور گلیشیئرز پھٹنے کی وجہ سے دریائے سوات میں بہت زیادہ مقدار میں پانی آیا اور اس نے دریا کے کنار ےآبادیوں اور ہوٹلوں کو زیادہ متاثر کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق اب عالمی سطح پر اس بات کا ادراک ہے کہ آب و ہوا کا تغیرات اور گلوبل وارمنگ اب ایک حقیقت ہے جس کی وجہ سے پاکستان جیسے ممالک بھی شدید متاثر ہورہے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان پرموسمیاتی تبدیلی کے مرتب ہونے والے شدید اثرات کی وجوہات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان جیسے ممالک موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔
یاد رہے کہ 2010 بعد پاکستان کے بڑے دریاؤں میں کوئی سیلاب نہیں آیا تھا۔ ماہرِ موسمیات ڈاکٹر قمر الزمان کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں بہنے والے دریاؤ ں سندھ، جہلم ، چناب اور روای کے بالائی علاقوں میں بارشیں اس عرصے کے دوران کم ہوئی ہیں لیکن اب یہ بارشیں آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کے جنوبی اور وسطیٰ علاقے میں ہو رہی ہیں۔
آب و ہوا کی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے مبصر نصیر سومر کہتے ہیں کہ پاکستان میں آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کو شدید تر کرنے کے کئی مقامی عوامل ہیں جن میں بڑھتی ہوئی آبادی ، زمین کا رہائشی علاقوں میں بہت تیزی سے تبدیل ہونا ، جنگلوں کے رقبہ میں کمی ہونا ، اور گورننس کے مسائل ہیں۔
کیا آ ب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سے نمٹا جا سکتا ہے؟
ماہرین اس خدشے کا اظہار کررہے کہ اگر آ ب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے طویل مدت کی مؤثر منصوبہ بندی نہ کی گئی تو پاکستان کو دو تین سال کے بعد دوبارہ غیر معمولی بارشوں اور غیر معمولی سیلاب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ماہر موسمیات ڈاکٹر محمد حنیف کہتے ہیں کہ پاکستانی حکام کو قدرتی آب وہوا اور ماحول کے تحفظ کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کرنا ہو گی تاکہ آب و ہوا کی عالمی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جاسکے۔ ملک میں جنگلات کے رقبے کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ درختوں کی کٹائی کو بھی روکنا ہوگا اس کے علاوہ بارش کے پانی کے ذخیرے بنانا ہوں گے تاکہ سیلابی پانی کو محفوظ کرکے بوقت ضرورت اور ہنگامی صورتِ حال میں اس کا آہستہ آہستہ اخراج کیا جائے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کو آب و ہوا کی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مقامی عوامل کا حل تلاش کرنا ہوگا جو پاکستان میں سیلاب اور غیر معمولی بارشوں کی وجہ سےتباہی کا باعث بن رہے ہیں۔
محمد حنیف کہتے کہ پاکستان میں ڈیم نہ بننے کی وجہ سے قیمتی پانی ضائع ہوا دوسری جانب چین میں گزشتہ تین برسوں کے دوران پانی ذخیرہ کرنے کے چھ ہزار ڈیم بنائے گئے ہیں لیکن پاکستان میں اس حوالے سے اب تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
محمد حنیف کہتے ہیں کہ ڈیر غازی خان کے علاقوں میں پہاڑی نالوں سے آنے والا پانی ہر سال تباہی مچاتا ہے، یہاں لگ بھگ 20 ڈیم بنا کر سیلابی صورتِ حال سے بچا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب ماہر موسمیات ڈاکٹر قمر الزمان کہتے ہیں کہ موسمیاتی تغیرات کے نتائج کے بارے میں عام لوگوں میں اتنا احساس نہیں ہے ا ور غریب طبقات ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں سیلاب آنے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا حکومت کو دریاؤں اور پانی کی گزر گاہوں کے قر یب وااقع زیر یں علاقوں کی نشان دہی کرنا ہو گی تاکہ وہاں پر لوگوں کو دوبارہ آباد ہونے سے روکا جاسکے۔
تجزیہ کار نصیر سومرو کہتے ہیں کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب ملک کے جنوبی اور وسطیٰ علاقوں بشمول بلوچستان میں غیر معمولی بارشوں کی وجہ سےآیا اس لیے یہ کہنا کہ ڈیم بنا کر اسے روکا جا سکتا شاید درست نہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ بارش کے پانی کو محدود حجم میں ہی میں ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دوسری جانب شہروں میں پانی اس لیے کھڑا رہا ہے چوں کہ پمپنگ کا نظام غیر فعال تھا اور اگر یہ نظام درست ہوتا تو یہ پانی نکالا جا سکتا تھا۔
نصیر سومر و کہتے ہیں کہ پاکستان میں 2010 کا سیلاب دریاؤں میں طغیانی کی وجہ سے آیا تھا لیکن اس بار بعض شہری علاقوں میں سیلابی کیفیت کا تعلق اس بات سے تھا کہ شہروں میں پانی کے اخراج کرنے والا پمپنگ نظام غیر فعال تھا۔
نصیر سومرو کہتے ہیں کہ پاکستان میں پانی کی پرانی گزرگاہوں پر تجاوزات کی وجہ سے رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے بارشوں کا پانی سیلاب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
اُن کے بقول پاکستان میں دریاؤں کے کنارے پانی کی گزرگاہوں کے راستوں پر تجاوزات کی تعمیر نہ کرنے کے قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔
نصیر سومرو کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے آب و ہوا کی تبدیلیوں کے اثرات کو محدود کرنا ایک چیلنج ہے۔ اس کے لیے قدرتی آفات سے نمٹنے کے نظام کو مؤثر بنانا ہو گا، تاکہ آب و ہوا کی تبدیلیوں کے خطرات آفات میں تبدیل نہ ہوں۔
اُں کے بقول پاکستان میں پانی کی قدرتی گزرگاہوں پر مقامی بااثر افراد کے قبضے کی شکایات بھی عام ہیں، لہذٰا حکومت کو ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرنا ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی ور مقامی سطح پر آفات سے نمٹنے والے اداروں میں ہم آہنگی پید ا کرکے آب و ہوا کی تبدیلیوں کی وجہ سے مرتب ہونے والے اثرات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔
یادر ہے کہ پاکستان میں محکمہ موسمیات کے حکام قبل از وقت یہ پیش گوئی کر چکے تھے کہ رواں سال پاکستان میں مون سون بارشوں کی شدت ماضی کے مقابلے میں زیادہ ہوگی۔
بعض مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستان نے سیلاب کے خدشات کے باوجود پہلے خود اس سے نمٹنے کی کوشش کی، اگر پہلے ہی عالمی اداروں سے مدد طلب کر لی جاتی تو شاید پاکستان کو مختلف اداروں اور ملکوں کی طرف سے ریلیف اور ریسکیو میں بروقت مدد مل جاتی۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا ایک فی صد سے بھی کم ذمے دار ہے، لہذٰا دنیا کے وہ صنعتی ممالک جہاں گرین ہاؤس گیسز کا اخراج زیادہ ہے، اُنہیں پاکستان کی مدد کے لیے آ گے آنا چاہیے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے محدود وسائل کے ذریعے آب و ہوا کی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کے وجہ سے پیدا ہونے غیر معمولی اثرات سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہے لیکن پاکستانی حکومت بین الاقوامی براداری سے بھی یہ توقع کرتی ہے کہ وہ پاکستان کو بروقت امداد فراہم کریں تاکہ پاکستان اس معاملے سے نمٹ سکے۔