سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے عندیے نے ملک میں ایک نئی قانونی اور سیاسی بحث چھیڑ دی ہے۔
نجی نیوز چینل 'دنیا نیوز' کے اینکر کامران خان کو پیر کی شب دیے گئے انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ نئے آرمی چیف کا تقرر نئے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کو کرنا چاہیے۔ اس پر اینکر نے سوال کیا کہ عام انتخابات میں تو 90 دن کا وقت لگ سکتا ہے اور اس دوران نومبر میں آرمی چیف ریٹائر ہو رہے ہیں تو کیا اُنہیں ایکسٹینشن دے دینی چاہیے؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ اس معاملے میں کوئی گنجائش نکالی جا سکتی ہے اور وکلا اور آئینی ماہرین اس پر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔
عمران خان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ان کے خلاف توہینِ عدالت کا مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے اور جب کہ اُن کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت بھی مقدمہ درج ہے۔ عمران خان اپنے جلسوں میں ملکی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جارحانہ مؤقف اپناتے رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے بیانیے میں اچانک تبدیلی اِس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ وہ تمام قومی اور ریاستی اداروں کے ساتھ لڑائی نہیں چاہتے۔ اُنہیں کہیں نہ کہیں احساس ہو رہا ہے کہ وہ غلطی پر ہیں اور زیادہ سخت مؤقف اُن کی نااہلی کا سبب بن سکتا ہے۔
'عمران خان کے بیانیے میں تبدیلی آ رہی ہے'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے تازہ انٹرویو سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ اب اُن کے بیانیے میں تبدیلی آ رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بیان سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ اُنہوں نے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
مجیب الرحمان شامی کے بقول عمران خان نے یہ پیغام دیا ہے کہ الیکشن کے بعد چاہے جو بھی حکومت آئے وہی نئے آرمی چیف کا تقرر کرے اور اس وقت تک موجودہ آرمی چیف ہی اپنے عہدے پر قائم رہیں۔
'عمران خان کو ادراک ہو گیا تھا کہ فوج مخالف بیانیہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتحار احمد کہتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ عمران خان جنہوں نے 16 فروری سے ایک بیانیہ اپنا رکھا تھا اس سے اچانک پیچھے کیوں ہٹ گئے؟
افتحار احمد کہتے ہیں کہ عمران خان یہ سمجھتے تھے کہ جلسے کر کے وہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا کر تبدیلی لے آئیں گے، لیکن ایسا نہیں ہو سکتا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید سمجھتے ہیں کہ اگرچہ عمران خان نے کھل کر تو کوئی بات نہیں کی مگر اُن کی گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کے بیانیے میں تبدیلی آ رہی ہے۔ عدلیہ کے بارے میں بھی انکےموقف میں پہلے جتنی جارحیت نہیں رہی ۔وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے ساتھ بات چیت ہو۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ عمران خان نے جو سیاسی جلسوں کا سلسلہ شروع کیا تھا اُس میں گوجرانوالہ جلسے سے پہلے وہ آخری کال کا کہا کرتے تھے۔ اُن کے کارکن کسی لانگ مارچ کا انتظار کر رہے تھے لیکن اس حوالے سے عمران خان کوئی واضح حکمتِ عملی سامنے نہیں لا سکے۔
افتخار احمد کہتے ہیں کہ عمران خان نے موجودہ فوجی قیادت کا نام لیے بغیر گزشتہ تین، چار ماہ کے دوران انہیں خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔
عدلیہ کےبارے عمران خان کے موقف میں تبدیلی پر افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ اُنہیں اپنے بیانات پر معافی مانگنا ہو گی اگر اںہوں نے ایسا نہ کیا تو قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔
کیا عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ صلح چاہتے ہیں؟
احمد ولید سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ طاقت کے سارے دھاگے اور ڈوریاں ایک ہی جگہ سے ہلائی جاتی ہیں اور وہ ہے فوجی اسٹیبلشمنٹ۔ اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے صلح چاہتے ہیں جس پر اُنہیں پیغام دیا گیا ہے کہ بات چیت ہو سکتی ہے۔ اَ
مجیب الرحمان شامی سمجھتے ہیں کہ عمران خان مختلت اوقات میں مختلف باتیں کرتے ہیں۔
اُن کے بقول پاکستان میں کوئی بھی سیاست دان اسٹیبلشمنٹ سمیت دیگر طاقت ور اداروں سے لڑائی مول لےکر اپنی سیاست کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔
نواز شریف کی مثال دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ یہ ہی غلطی اُنہوں نے بھی کی تھی۔ جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ پاکستان کی سیاست سے نااہل ایک خاص وقت کے لیے نہیں بلکہ تاحیات نااہل ہو گئے ہیں۔
اپنے انٹرویو میں عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر توہینِ عدالت کیس میں اُنہیں بات کرنے کا موقع دیا جاتا تو شاید وہ عدالت کو مطمئن کر دیتے۔
عمران خان کے انٹرویو کے بعد ایک ٹویٹ میں تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ نئے انتخابات کے انعقاد تک اسٹیبلشمنٹ کا موجودہ اسٹیٹس کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ملک کے سیاسی مستقبل اور جمہوریت کی بحالی کا ایک عملی فارمولہ پیش کر دیا ہے۔ ملک کی اقتصادی حالت مزید تباہی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔