پاکستان کے مرکزی بینک نے کہا ہے کہ سیلاب متاثرین کی امداد کےلئے قائم وزیر اعظم کے فنڈ اکاؤنٹ میں ترسیلات کو مسترد کرنے کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے ترجمان کی جانب سے وائس آف امریکہ کے سوال پر بھجوائے جانے والے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات میں کوتاہی کا مرتکب پائے جانے پر بینک کے خلاف تعزیراتی کاروائی کی جائے گی۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان بیرونی دنیا سے سیلاب متاثرین کے لئے امداد کی اپیل کررہا ہے بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے یہ شکایات آرہی ہیں کہ ان کی طرف سے بجھوائی جانے والی رقوم کو لینے سے بینک نے انکار کردیا ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لئے بیرونی دنیا اور بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں سے امداد کی اپیل کی گئی تھی۔
اسٹیٹ بینک نے اس سے قبل وضاحت کی تھی کہ بینکوں کے خلاف سیلاب کے متعلق عطیات قبول نہ کرنے کی شکایات گمراہ کن ہیں تاہم اس کے باوجود سیلاب متاثرین کے لئے ت تشہیر کردہ وزیر اعظم اور دیگر حکومتی بینک اکاؤنٹس میں بیرون ممالک سے پاکستانیوں کی ترسیلات مسترد ہونے کی شکایات آرہی ہیں۔
پاکستان میں آنے والے تاریخ کے بدترین سیلاب سے اب تک 14 سو کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ملک کا ایک تہائی حصہ تباہی اور بربادی کی تصویر بن گیا ہے۔
سیلاب سے ملک کے طول و عرض میں پھیلے کروڑوں ا فراد امداد کے منتظر ہیں جن میں لاکھوں لوگ ایسے جنہیں اب تک بھی کوئی امداد نہیں پہنچ سکی۔
اتنی بڑی آفت پر ملک اور بیرون ملک سے لوگ مدد کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن حکومت کی طرف سے قائم کردہ بینک اکاؤنٹ میں فنڈز کی ترسیلات میں لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
اس بارے میں فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کی ڈائریکٹر جنرل لبنیٰ فاروق ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی سفارشات پر وضع کردہ بینکنگ قواعد سے واسطہ نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بینک صرف یہ د یکھتا ہے کہ بھجوائی جانے والی رقم کسی کالعدم تنظیم یا ممنوعہ فرد کو نہ جائے جو کہ اقوام متحدہ کی پابندی کی فہرست یا پاکستانی تحقیقاتی اداروں کے فورتھ شیڈیول میں شامل نہ ہو۔
ڈاکٹر لبنی کہتے ہیں کہ پالیسی سطح پر ایسی کوئی پابندی یا قدغن نہیں ہے کہ بیرون ممالک سے پاکستان میں سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے رقوم منتقل نہ ہوسکیں۔
اس کے علاوہ حکومت نے بہت سی عالمی فلاحی تنظیموں کو بھی تاحال ملک میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
امریکہ میں پاکستان کے سفیر مسعود خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ جن بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو پاکستان میں کام کرنےکی اجازت نہیں ہے، انہیں چاہیے کہ وہ امداد پاکستان کے حکام کو دیں، اس طرح ان کی امداد سیلاب زدگان تک پہنچا دی جائے گی۔
اسٹیٹ بینک نے اپنے بیان میں کہا کہ بینک وزیر اعظم کے فلڈ ریلیف فنڈ میں عطیات کو وصول کررہے ہیں اس تناظر میں تمام ممکنہ ذرائع بشمول او ٹی سی کیش ٹرانزیکشن، آن لائن منتقلیوں اور بین الاقوامی اور مقامی کریڈٹ کارڈ منتقلیوں سمیت عطیات قبول کئے جارہے ہیں۔
مرکزی بینک نے کہا ہے کہ امداد دینے والے افراد کو اگر اس حوالے سے کسی مشکل کا سامنا ہے تو وہ اپنی شکایات متعلقہ بینک یا اسٹیٹ بینک کے پاس جمع کروا سکتے ہیں۔
اس سے قبل حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے ترجمان نے بھی کہا تھا کہ دو صوبائی وزراء اعلی کے قائم کردہ بینک اکاؤنٹس کے کھاتوں میں ٹرانزیکشنز نہیں ہورہی ہیں۔
مزمل اسلم نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ "گزشتہ شام بیرون ملک کچھ دوستوں نے اطلاع دی ہے کہ ان کے کریڈٹ کارڈ سے عطیات کی ٹرانزیکشنز نہیں ہو رہی۔ متعلقہ کریڈٹ کارڈ کمپنیوں کے ساتھ معاملہ اٹھانے پر معلوم ہوا کہ حکومت پاکستان نے ان کا آپریشن بلاک کر دیا ہے۔”
اس کے جواب میں اسٹیٹ بینک نے واضح کیا تھا کہ ان اکاؤنٹس کے لیے سیلاب زدگان کے لیے عطیات قبول کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جا رہی ہے۔