طالبان نے پیر کو افغانستان میں واحد امریکی یرغمال مارک فریرکس کو طالبان رہنما بشیر نورزئی کے بدلے رہا کر دیاہے ، جو امریکہ میں منشیات سمگلنگ کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا تھا۔
طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کابل میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ ان کی حکومت اور امریکہ سے آنے والے وفد کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ وفد نے افغان دارالحکومت کے ہوائی اڈے پر ملاقات کی۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے مارک کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو سال سے زیادہ عرصے سے قید میں رہنے کے بعد وہ محفوظ ہیں اور افغانستان سے اپنے گھر جا رہے ہیں۔
’’ میں محکمہ خارجہ کی اپنی ٹیم اور قطر میں ہمارے شراکت داروں کا شکر گزار ہوں، مارک کی اپنے پیاروں کے پاس واپسی طالبان کے ساتھ رابطوں کا نتیجہ ہے‘‘۔
مارک فریرکس،جن کی عمر تقریباً 60 سال ہے ، ایک امریکی انجینئر اور بحریہ کے سابق اہلکار ہیں ۔ انہیں 2020 کے اوائل میں کابل سے اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب امریکہ اور نیٹو کے فوجی مغربی حمایت یافتہ افغان حکومت کی مدد کے لئے اس وقت کی طالبان کی شورش کا مقابلہ کر رہے تھے۔
نورزئی کو، جسے حاجی بشیر کے نام سے جانا جاتا ہے، 2005 میں نیویارک سے گرفتار کیا گیا تھا اور اس کے بعد ان پر لاکھوں ڈالر مالیت کی ہیروئن امریکہ سمگل کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ مبینہ طور پر طالبان کے سرکردہ ساتھی نورزئی نے ہیروئن کی اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی سے باغیوں کو فنڈز فراہم کرنے اور انہیں مسلح کرنے میں مدد کی۔
افغان سرکاری میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ نورزئی گوانتاناموبے کے حراستی کیمپ میں قید آخری افغان قیدیوں میں شامل تھے۔
افغانستان واپس پہنچنے کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، نورزئی نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اگر اللہ نے چاہا تو میرے تبادلے سے افغانستان اور امریکہ کے درمیان امن کا راستہ پیدا ہو جائے گا۔
وزیر خارجہ متقی نے قیدیوں کے تبادلے کو "افغانستان کی تاریخ میں بے مثال" قرار دیا اور کہا کہ یہ طالبان اور امریکہ کے درمیان طویل مذاکراتی عمل کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک دونوں سابق مخالفین کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ افغانستان سے باہر ہوگا۔
تقی نے طالبان حکومت کا سرکاری نام استعمال کرتے ہوئے کہاکہ "آج صبح 10 بجے امریکی شہری کو کابل کے ہوائی اڈے پر ایک امریکی ٹیم کے حوالے کیا گیا اور حاجی بشیر کو امارت اسلامیہ کے حوالے کر دیا گیا"۔
نورزئی کے وکیل نے اس بات کی تردید کی تھی کہ ان کا موکل منشیات کا مالک تھا اور دلیل دی کہ ان کے خلاف الزامات کوخارج کر دینا چاہیے کیونکہ امریکی حکام نے انہیں یہ یقین دلایا کہ اسے گرفتار نہیں کیا جائے گا۔
طالبان کے ساتھ تقریباً دو دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد گزشتہ سال اگست میں بین الاقوامی افواج مکمل طور پر افغانستان سے نکل گئیں، جس سے اسلام پسند گروپ کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔
متقی نے کہا کہ ان کی امریکہ کے ساتھ ملاقات "مثبت" رہی ہے۔ مہمانوں کی افغانستان روانگی سے قبل کابل ایئرپورٹ پر حکام نے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ لیکن انہوں نے اس بارے میں تفصیل نہیں بتائی۔
طالبان وزیر خارجہ نے کہا کہ پیر کی پیشرفت نے افغانستان اور امریکہ کے تعلقات میں ایک "نئے باب" کا آغاز کیا ہے، اس سے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا قیدیوں کے تبادلے سے امریکہ کے طالبان کے ساتھ معاملات کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ طالبان طویل عرصے سے انکار کرتے آئے ہیں کہ مارک فریرکس کے اغوا کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا۔
ایک سابق افغان اہلکار اور سیاسی مبصر، توریک فرہادی نے کہا، "معجزانہ طور پر مارک فریچس کو تبادلے کے لیے ڈھونڈنا بالکل سفارت کاری کے مترادف نہیں ہے اور نہ ہی دنیا کے ساتھ اعتماد سازی کے برابرہے۔
امریکہ اور پوری دنیا نے ابھی تک انسانی حقوق اور دہشت گردی سے متعلق خدشات پر طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے ۔
نورزئی، ایک بااثر قبائلی رہنما کے طور پر ، جنوبی صوبے قندھار میں افیون کے کھیتوں کے مالک تھے اور وہ طالبان کے بانی رہنما ملا محمد عمر کے قریبی ساتھی تھے۔
نورزئی کے خلاف امریکی چارج شیٹ کے مطابق 2001 میں ، جب امریکہ نے افغانستان میں فوجی کارروائیاں شروع کیں، تو ملا عمر کی درخواست پر نورزئی نے اپنے سینکڑوں جنگجو افغان گروپوں کے اس وقت کے طالبان مخالف اتحاد سے لڑنے کے لیے فراہم کئے ۔
(اس خبر کا مواد وی او اے نیوز ، رائٹرز اور محکمہ خارجہ کے بیان سے لیا گیا ہے ۔)