رسائی کے لنکس

ر وس کے یوکرینی علاقوں کو ضم کرنے پر جنرل اسمبلی میں مذمتی قراداد منظور؛ پاکستان، بھارت سمیت 35 ممالک غیر حاضر


اقوا م متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ماسکو کی طرف سے حال ہی میں یوکرین کےبعض علاقوں کا روس کے ساتھ الحاق کرنے کی اقدام مذمت کی قرارادا د کو بھاری اکثریت سے منطور کر لیا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بدھ کو پیش ہونے والے قرار داد کی 143 ممالک نے حمایت ، پانچ نے مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ پاکستان ،بھارت ، جنوبی افریقہ اور چین ان 35 ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے قرارداد پر ہونے والی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ۔

قرار داد میں روس کی طرف سے یوکرین کے بعض علاقوں میں روس سے الحاق کے لیے ہونے والے ریفرنڈم کی مذمت کی ہے جو قرار داد کے مطابق یوکرین کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ علاقوں کے اندر کیا گیا ہے۔

قراراد میں اقوا م متحدہ اور بین الاقوامی اداروں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ روس کی کی طرف سے کیے گئے عمل کو تسلیم نہ کریں اور دوسری جانب روس پر زور دیا گیا ہے وہ اپنے اس اقدام کو واپس لے۔

رواں سال فروری میں روس کے یوکرین پر حملے کی امریکہ اور اس کی اتحادی ممالک کی طرف سے مذمت کرتے ہوئے روس پر نہ صرف مختلف نوعیت کے تعزیرات عائد کی گئی ہیں بلکہ مغربی ممالک نے عالمی برداری پر زور دیا جار ہا ہے کہ وہ روس کی اس اقدام کی مذمت کریں۔

اگرچہ پاکستان اور بھارت سمیت کئی ایک ممالک نے یوکرین روس تنازع پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے اس معاملے کو بات چیت اور پرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دیتے آرہے ہیں لیکن پاکستان اور بھارت کی طرف سے اس معاملے پر اب تک غیر جانبدار موقف اختیار کیا جارہا ہے۔

پاکستان اور بھارت سمیت 35 ممالک نے اقوام متحدہ میں منظورہونے والی قرارداد کی ووٹنگ میں ایک ایسے وقت غیر حاضر رہے ہیں جب امریکہ اور مغربی ممالک کی کوشش تھی کہ یوکرین کے معاملےپر زیادہ سے زیادہ ممالک روس کے برخلاف ایک واضح موقف اختیار کریں۔

مذمتی قراردادا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش ہونے سے پہلے امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان نے منگل کو نیوز بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ دنیا کے وہ ممالک جو اقوام متحدہ کی چارٹر کے اصولوں کو مانتے ہیں ان کے لیے غیر جانبدار رہنا کوئی چیز نہیں ہے۔

بین الاقوامی امور کےتجزیہ کار نجم رفیق کہتے ہیں کہ ہر آزاد ملک کا یہ حق ہے کہ کسی قرارداد کے حق میں ووٹ دیں ، اس کی مخالفت میں ووٹ دیں یا غیر جانبدار رہے۔ ان کےبقول پاکستان نے بھی اس قراردا دا میں کئی اور ممالک کے طرح غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ان کےبقول اس سے یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ پاکستان امریکہ یا مغرب کے خلاف ہے یا کسی اور ملک کے ساتھ کھڑے ہیں۔

پاکستان دنیا کے تمام ممالک بشمول امریکہ اور روس کے ساتھ تعلقات کو قائم رکھنے کی کوشش کر تا ہے اور حالیہ سالوں میں پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات میں بتدریج بہتری آرہی ہے۔ دوسری جانب حال ہی میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطوں کا سلسلہ ایک بار پھر استوار ہو گیا ہے۔ اس لیے بعض مبصرین کہتے ہیں کہ ان حالات میں پاکستان کے لیے غیر جانبدار رہنا ایک مناسب پالیسی ہے۔

نجم رفیق کہتے ہیں پاکستان امریکہ یا روس کو منفی پیغام نہیں دینا چاہتا ۔ لہذا پاکستان یوکرین روس تنازع میں غیر جانبدار رہنا اپنے میں مفاد میں بہتر سمجھتا ہے۔

لیکن کیا پاکستان پر امریکہ اور مغرب کی طرف سے یوکرین کے معاملے پر اقوام متحدہ میں روس کی مخالفت میں ووٹ دینے کے لیے پاکستان پر کوئی دباؤ ہو سکتا تھا؟ پر نجم رفیق نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ یوکرین کے حوالے سے پاکستان پر کوئی دباؤآیاہو گا۔

تاہم، انہوں نے کہا اقوام متحدہ میں ووٹنگ حاصل کرنے کی لابینگ ہوئی اور پاکستان کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے ضروری کوشش کی گئی ہے ۔

'روس، یوکرین کے تعلیمی نظام کے خلاف بھی جنگ کر رہا ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:59 0:00

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان ماضی میں عالمی سطح پر بعض تنازعات بشمول افغانستان کے معاملے میں کسی ایک فریق کے ساتھ کھڑا رہاہے جس کی پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ لیکن اب سابق حکومت کے دورسے پاکستان یوکرین کے معاملے پر غیر جانبدار موقف اپنایا ہوا تھا اور موجودہ حکومت بھی غیر جانبدار پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کی پالیسی بھی یہی ہے کہ پاکستان کسی عالمی تنازع میں فریق نہیں بنے گا ۔ یوکرین روس تنازع پر بھارت کی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوے پاکستان کے سابق سفارت کار شمشاد خان نے نئی دہلی کے یوکرین سے متعلق موقف کوبھارت کی طے شدہ پالیسی کا تسلسل قرار دیا ہ جو ان کےبقول بھارت کے قومی مفاد کےلیے درست ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی کے فیصلوں کو اپنے قومی مفاد کےتابع کرنے کی پالیسی کو جاری رکھنا ہوگا۔

یادر ہے کہ حال ہیں امریکہ کی طرف سے ایف 16 کے آلات اور پرز ے فراہم کرنے کے فیصلے اور جرمنی کی طرف سے کشمیر پر بیانات کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے کیونکہ بھارت یوکرین کے معاملے پر روس کی مذمت کرنے پر تیار نہیں ہے۔

لیکن پاکستان کے سابق سکرٹری خارجہ شمشاد احمد کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ نہ تو بھارت پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہےاور نہ بھارت نے کبھی اپنے قومی مفادات پر سمجھوتا کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG