رسائی کے لنکس

میدان جنگ میں ہار سے دوچار روس کچھ بھی کر سکتا ہے، جنرل کلارک


جنرل ویسلی کلارک (رائٹرز)
جنرل ویسلی کلارک (رائٹرز)

واشنگٹن ( مونا کاظم، اے پی ) ایک ایسے وقت میں جب روسی صدر یوکرین کی جنگ جیتنے کےُلئے ہر حربہ آزمانے کا اعادہ کر رہے ہیں، یورپ میں اتحادی فوجوں کے سابق امریکی کمانڈر جنرل ویسلی کلارک نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ صدر پوٹن مغرب کو دھمکانے اور یوکرین کو مغربی حمایت سے محروم کرنے کے لئے جو کچھ بھی کر سکتے ہیں کر رہے ہیں، لیکن میدان جنگ میں اس سب کا کیا نتیجہ نکلتا ہے وہ اہم ہے۔

جنرل ویسلی نے کہا کہ اس وقت روس میدان جنگ میں ہار رہا ہے،چنانچہ یہ بات بہت اہم ہے کہ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک یوکرین کی فوجی اور مالی مدد جاری رکھیں۔

جب سوال کیا گیا کہ جب پوٹن ایٹمی جنگ کی بات کرتے ہیں تو کیا وہ آپ کے خیال میں سنجیدہ ہیں یا محض جھانسہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جنرل کلارک نے کہا کہ یہ پہلو تشویشناک ہونا چاہیے۔

’’میں نہیں سمجھتا کہ وہ فریب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ممکن ہے کہ وہ جب بھی طے کریں، جوہری ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنا ان کے بہترین مفاد میں ہے۔ لیکن اب تک انہوں نے جوہری ہتھیاروں کو استعمال نہیں کیا ہے،اور ہمیں اس بات سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی بات کر رہے ہیں۔ ہمیں یو کرین کی مدد جاری رکھنی چاہیے ، یوکرین کو روس کو اپنے ملک سے نکالنے کے جس کی اسے روس کو یوکرین سے نکالنے کے لئے ضرورت ہے اور جب روسی میدان جنگ میں ہاریں گے تو ان جوہری ہتھیاروں کے کوئی زیادہ معنی نہیں رہ جائیں گے۔‘‘

دریں اثنا روسی صدر ولاڈی میر پوٹن نے جمعے کے روز کہا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ یوکرین میں اپنی فوجوں کی تعداد بڑھانے کے لئے انہوں نے ریزرو فوجیوں کو طلب کرنے کا جو حکم دیا تھا، اس کے تحت آئندہ دو ہفتے میں فوجیوں کی مطلوبہ تعداد مکمل ہو جائے گی۔ اور یوں ریزرو فوجیوں کی طلبی کا عمل جو انتہائی غیر مقبول تھا، رک جائے گا۔

پوٹن نے قازقستان میں ایک سربراہ کانفرنس میں شرکت کے بعد رپورٹروں کو بتایا کہ روسی وزارت دفاع نے نے تین لاکھ ریزرو فوجیوں کو طلب کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا، ان میں سے دو لاکھ بائیس ہزار اب تک آچُکے ہیں۔ ان میں سے 33 ہزار پہلے ہی ملٹری یونٹوں میں پہنچ چکے ہیں جب کہ سولہ ہزار جنگ میں شامل ہو چکے ہیں۔

ایسے میں جب کہ یوکرین کےجوابی حملے میں پوٹن کی فوجوں کے ہاتھوں سے مقبوضہ علاقے نکل گئے، ستمبر میں انکی جانب سے ریزرو فوجیوں کی طلبی کے اعلان نے روسی عوام میں عدم اطمنان اور مایوسی پیدا کردی جہان 65 برس سے کم عمر کے تقریباً تمام ہی لوگ ریزرو فوجیوں کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہیں۔ اسکے ساتھ ہی روس کے قوم پرستوں نے اس طریقہ کار پر نکتہ چینی کی جو کریملن نے اس جنگ کے لئے اختیار کیا۔ اور یوں پوٹن پر دباؤ بڑھایا کہ وہ جنگ کا پانسہ روس کے حق میں پلٹنے کے لئے مزید اقدامات کریں۔

پوٹن اور دوسرے اعلی عہدیداروں کی جانب سے یہ کہے جانے کے باوجود کہ ریزرو فوجیوں کی اس طلبی سے تقریباً تین لاکھ لوگ متاثر ہوں گے، اس فرمان میں جس پر صدر نے ڈرا فٹ کے لئے دستخط کئے اس میں ریزرو فوجیوں کی کسی مخصوص تعداد کا کوئی ذکر نہ تھا۔ روسی میڈیا کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ طلب کئے جانے والے ریزرو فوجیوں کی تعداد بارہ لاکھ تک ہو سکتی ہے۔

کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف کا موقف ہے کہ فرمان کی ایک خفیہ شق میں لوگوں کی وہ تعداد دی گئی ہے۔ جتنی تعداد میں لوگوں کو طلب کرنا مقصود تھا۔

پوٹن نے ابتداءً میں اسے ایک جزوی طلبی قرار دیا تھا۔ اور کہا تھا کہ صرف ان لوگوں کو ڈرا فٹ کیا جائے گا جن کا جنگ یا سروس کا تجربہ ہو۔ لیکن روسی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی کہ ان تمام لوگوں کو بھی طلب کرنے کی کوشش کی گئی جن کا کوئی متعلقہ تجربہ نہ تھا یا جو طبی بنیادوں پر سروس کے اہل نہ تھے۔

پوٹن کے ان احکامات کے سبب لاکھوں لوگ روس چھوڑ کر چلے گئے۔ اور اس کے بعد سے ایسی رہورٹیں آرہی ہیں کہ ایسے لوگوں کو یوکرین میں محاذوں پر بھیجا جارہا ہے، جن کی تربیت بھی معمولی ہے اور جن کے پاس آلات و ہتھیار بھی ناکافی ہیں۔

اور اطلاعات یہ ہیں کہ متعدد ریزرو فوجی اس کے کئی روز بعد جب کہ انہیں ڈرا فٹ کیا گیا تھا اس ہفتے یو کرین کی جنگ میں ہلاک ہو گئے۔

ادھر یوکرین کی مسلح افواج کے کمانڈر جنرل ویلری زوزنی نے جمعے کے روز دعوی کیا کہ انکی افواج وہ سب کچھ واپس لینے میں کامیاب ہو جائیں گی جو ہمارا ہے۔

(خبر میں شامل کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا)

XS
SM
MD
LG