امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار 'بے ربط' ہیں اور ہو سکتا ہے کہ یہ ملک دنیا کے سب سے زیاد 'خطرناک' ملکوں میں سے ایک ہو۔ جو بائیڈن کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ امریکی سفیر کو دفترِ خارجہ طلب کر کے اس بیان کی وضاحت طلب کی جائے گی۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی امریکی صدر کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس میں کسی کوئی شبہہ نہیں رہنا چاہیے کہ پاکستان اپنے جوہری اثاثوں کی سیکیورٹی کے معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیتا ہے۔
جمعرات کی شب لاس اینجلس میں ڈیمو کریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ کیا کسی نے سوچا تھا کہ آج ہم یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ چین بھارت، روس اور پاکستان کے ساتھ اپنے روابط میں تبدیلی لا رہا ہو۔
بائیڈن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ کسی بھی امریکی سربراہِ مملکت سے زیادہ وقت گزارا ہے۔ ان کے ساتھ گزشتہ 10 برسوں میں ہونے والی ملاقاتوں کا دورانیہ 78 گھنٹے ہے جن میں سے 68 گھنٹے ون آن ون ملاقاتوں کے تھے۔
صدر بائیڈن نے چینی صدر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں، لیکن ان کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں، لہٰذا ہم انہیں کیسے ہینڈل کریں؟ روس میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے ہم کیسے نمٹیں؟ اور میرا خیال ہے کہ دنیا کےسب سےخطرناک ملکوں میں سے ایک، پاکستان ہے، جس کے جوہری ہتھیار بے ربط ہیں۔"
بائیڈن کا کہنا تھا کہ اس ساری صورتِ حال میں بہت کچھ ہو رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے پاس اکیسویں صدی کے دوسرے کوارٹر میں ان حالات میں تبدیلی کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔
صدر بائیڈن کے بیان سے متعلق سوال پر وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرین جان پیئر نے جمعے کو نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ صدر بائیڈن نے اپنے بیان میں پاکستان سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ صدر ایک محفوظ اور خوشحالی پاکستان چاہتے ہیں، جو امریکی مفادات کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔
صدر بائیڈن نے خطاب میں کہا کہ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم ان حالات کو کیسے سنبھال سکتے ہیں، آپ میں سے کئی نے یہ پہلے بھی سن رکھا ہو گا جو میں نے صدر بننے کے بعد دنیا کی سات بڑی جمہوریتوں کے فورم جی سیون سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''اب امریکہ واپس آ گیا ہے۔''
وزیرِ اعظم شہباز شریف کا بائیڈن کے بیان پر اپنی ٹویٹ میں مزید کہنا تھا کہ پاکستان ایک ذمے دار ایٹمی قوت ہے اور ہمیں اس پر فخر ہے کہ ہمارے جوہری اثاثے ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے قواعد و ضوابط کے مطابق محفوظ ہیں۔
امریکی سفیر کو دفترِ خارجہ طلب کرنے کا فیصلہ
صدر بائیڈن کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر اُن کی وزیرِ اعظم شہباز شریف سے بات ہوئی ہے اور امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو دفترِ خارجہ طلب کر لیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈیمارش (سفارتی مراسلہ) اُن کے حوالے کیا جائے گا۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے طے کردو اُصولوں کے مطابق اپنے جوہری پروگرام کا تحفظ یقینی بنا رکھا ہے۔
پاکستانی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کو پاکستان کے بجائے بھارت کے جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی کی بات کرنی چاہیے تھے، جس کی جانب سے غلطی سے داغے جانے والا میزائل پاکستانی حدود میں گرا تھا۔
خیال رہے کہ رواں برس نو مارچ کو بھارت کی جانب سے آنے والا ایک میزائل پاکستانی پنجاب کے علاقے میاں چنوں میں گرا تھا۔ اس میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا تھا، تاہم ایک مکان اور ہوٹل کو نقصان پہنچا تھا۔
بعدازاں بھارتی حکام نے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ سپر سانک کروز میزائل 'براہموس' تھا، جو غلطی سے پاکستانی علاقے کی جانب فائر ہو گیا۔ بھارت نے اس پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے بیان سے حیرانی ہوئی اور یہ غلط فہمیاں باہمی رابطے نہ رکھنے کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔ لیکن اب خوش قسمتی سے ہم دوبارہ باہمی روابط کو فروغ دے رہے ہیں۔
اس سے قبل وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے ہفتے کو ایک پریس کانفرنس کے دوران اس حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ امریکی صدر کے پاکستان سے متعلق شکوک و شہبات بے بنیاد ہیں۔
خرم دستگیر جو مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں وزیرِ دفاع بھی رہ چکے ہیں کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بالکل محفوظ ہے اور کئی عالمی تنظیمیں درجنوں بار پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے محفوظ ہونے کی تصدیق کر چکی ہیں۔
'کیا پاکستان نے جوہری طاقت بننے کے بعد کسی ملک کے خلاف جارحیت کی؟'
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی امریکی صدر کے بائیڈن پر ردِعمل دیتے ہوئے سوال اُٹھایا کہ کیا بائیڈن بتا سکتے ہیں کہ جوہری طاقت حاصل کرنے کے بعد پاکستان نے کب کسی ملک کے خلاف جارحیت کی؟
عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں حکومتِ پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بائیڈن کا یہ بیان 'امپورٹڈ حکومت' کے اس دعوے کی نفی کرتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ استوار کیا جا رہا ہے۔ یہ اس حکومت کی نااہلی ظاہر کرتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ بطور سابق وزیرِ اعظم یہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیاروں کے تحفظ کا جدید ترین کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام ہے۔
امریکی صدر کے بیان پر پاکستان کے سابق وزیرِاعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے ٹویٹ کیا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے جو بین الاقوامی قوانین اور طریقوں کا احترام کرتے ہوئے اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا جوہری پروگرام کسی بھی ملک کے لیے خطرہ نہیں ہے۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان تمام دیگر آزاد ریاستوں کی طرح اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کا حق رکھتا ہے۔
واشنگٹن میں قائم ولسن سینٹر میں جنوبی ایشائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین نے صدر بائیڈن کے ریمارکس پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت عجیب بیان ہے، عام طور پر امریکی حکام ایسے بیانات عوامی سطح پر نہیں دیتے۔
خیال رہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ امریکہ کو یہ گلہ رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان بعض طالبان گروپس کی حمایت کرتا رہا ہے جب کہ پاکستان کا یہ شکوہ رہا ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کیا۔
حال ہی میں پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف، وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور پاکستانی آرمی چیف امریکہ کے دورے کر چکے ہیں۔ ان دوروں میں دونوں ملکوں کے حکام کی جانب سے تعلقات کو بہتر بنانے پر اتفاق بھی کیا گیا تھا۔
امریکی کانگریس نے حال ہی میں پاکستان کے ایف سولہ طیاروں کی مرمت اور اپ گریڈیشن کے لیے 45 کروڑ ڈالر کی منظوری بھی دی تھی۔