سرگرم خواتین کے ایک گروپ نے افغانستان کے دار الحکومت میں منگل کے روز ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ خواتین کابل یونیورسٹی ہاسٹل سے درجنوں طالبات کے اخراج پر احتجاج کر رہی تھیں جنہیں طالبان حکام نے ہاسٹل سے بے دخل کردیا تھا۔
اس احتجاج میں طلباء بھی شامل تھے۔ یونیورسٹی کیمپس کے باہر جمع ہوئے مظاہرین نعرے لگا رہے تھے “تعلیم ہماری سرخ لکیر ہے” اور “ خاموشی غداری ہے”۔
مظاہرین نے اسلام پسند طالبان کی قیادت والی اعلی تعلیم کی وزارت پر گزشتہ چند روز کے دوران کم از کم چالیس طالبات کو ادارے سے بے دخل کرنے کا الزام عائد کیا۔
کابل یونیورسٹی ملک کے سب سے قدیم اداروں میں سے ایک اور انتہائی قابل احترام ادارہ ہے۔ وزارت کے ایک بیان میں اتوار کے روز اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ متعدد خواتین کو یونیورسٹی کے ضوابط کی خلاف ورزی کے سبب ہاسٹل سے نکال دیا گیا ہے۔ مگر ان کے بیان میں مزید تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔
لیلی بسیم نے، جنہوں نے منگل کے روز احتجاج میں شرکت کی، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طلباء کو "کا ج ایجوکیشن سینٹر "پر ہونے والے حملے کے خلاف احتجاجی ریلی میں شرکت کی سزا دی گئی ہے۔
انہوں نے تیس ستمبر کو مغربی کابل کے ایک محلے میں ایک پرائیویٹ اسکول پر خود کش حملے کا حوالہ دیا جس میں چھیالیس لڑکیوں اور خواتین سمیت 53 افراد ہلاک اور ایک سو دس افراد زخمی ہوئے تھے جن میں بیشتر خواتین شامل ہیں۔
اس قتل عام نے خواتین سرگرم کارکنوں اور طلباء کو مشتعل کردیا اور وہ اس حملے کے کچھ ہی وقت بعد اس کی مذمت اور متاثرین کے واسطے انصاف طلب کر نے کے لئے کابل سمیت کئی بڑے شہروں میں سڑکوں پر نکل آئے۔
طالبان کا کہنا ہے معاملے کی تحقیقات ہو رہی ہے۔ لیکن انہوں نے ابھی تک اس تحقیقات کے نتائج کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے ۔
اب تک کسی نے اس حملے کی ذمہ داری کا دعوی نہیں کیا ہے۔
اگست دو ہزار اکیس میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے وہاں صرف مردوں پر مشتمل عبوری انتظامیہ قائم کی۔ لیکن ابھی تک کسی ملک نے انہیں تسلیم نہیں کیا ہے۔
بین الاقوامی برادری میں خاص طور سے حقوق انسانی سے متعلق طالبان کے ریکارڈ پر تشویش پائی جاتی ہے۔ سخت موقف رکھنے والے گروپ نے برسر اقتدار آنے کے بعد سے خواتین پر بہت سی پابندیاں عائد کردی ہیں۔
بچوں کی عالمی تنظیم "سیو دی چلڈرن" کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق طالبان کی واپسی کے بعد سے ملک میں تعلیم کا نظام بد تر ہو گیا ہے۔ اس تنزلی سےبچوں، خاص طور ہر لڑکیوں، کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سیکنڈری اسکول کی گیارہ لاکھ طالبات میں سے اکثریت، یعنی کوئی ساڑھے آٹھ لاکھ طالبات، کلاسوں میں نہیں جا رہی ہیں۔