ویب ڈیسک۔ایسے میں جب کابل میں جمعے کے روز ایک تعلیی مرکز پرہونے والے خودکش حملے میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے،افغانستان کے کئی شہروں میں پیر کے روز بھی طالبات نے مسلسل تیسرے روز سڑکوں پر احتجاج جاری رکھا۔ وہ حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہی تھیں۔
وائس آف امریکہ کے لیے ایازگل کی رپورٹ کے مطابق، افغانستان کے اندر اقوام متحدہ کے مشن (یو این اے ایم اے) نے بتایا ہے کہ جمعے کے روز دارالحکومت کابل میں ہونے والےبڑےحملے کے نتیجے میں 53 افراد ہلاک ہو ئے ہیں جن میں سے 46 لڑکیاں اور خواتین شامل ہیں۔ اس حملے میں 110 سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
یو این اے ایم اے نے پیر کے روز ایک ٹوئٹ میں بتایا:
’’ خواتین اور نوجوان لڑکیاں شکار ہوئیں۔ ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ انسانی حقوق کی ہماری ٹیم جرائم کو دستاویز کا حصہ بنا رہی ہے۔ وہ حقائق کی تصدیق کر رہی ہے اور قابل بھروسہ ڈیٹا تشکیل دے رہی ہے‘‘۔
کابل کے مغربی علاقے دشت برچی میں ایک تعلیمی مرکز کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ سنٹر افغانستان میں اقلیتی ہزارہ کمیونیٹی کے علاقے میں واقع ہے۔
تعلیمی مرکز کے سپروائزروں نے بتایا ہے کہ سنٹر میں چار سو کے قریب لڑکے اور لڑکیاں تعلیم حاصل کرتےتھے جنہیں طالبان کی ہدایات کے مطابق پردے لگا کر الگ الگ سیکشن میں تعلیم دی جاتی تھی۔ یہ طالبعلم یونیورسٹی کے امتحانات کی ٹیسٹوں کے ذریعے تیاری میں مصروف تھے جب خواتین کے سیکشن میں ایک زووردار دھماکہ ہوا۔
اسلام پسند طالبان کی حکومت، ہزارہ اقلیت کو سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکامی پر شدید تنقید کی زد میں ہے اور حقوق کے لیے سرگر م تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ کمیونٹی ملک میں سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔
پیر کے روز، یونیورسٹی کے درجنوں طالبعلموں نے بلخ صوبے کے دارلحکومت مزار شریف میں مارچ کی اور حملے کا نشانہ بننے والوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔
طالبان سکیورٹی فورسز نے، سوشل میڈیا پر جاری وڈیوز کے مطابق، مبینہ طور پر طالبات کے ایک گروپ کو ان کے ہوسٹل کے ہال میں بند کردیا تاکہ وہ مظاہروں میں شرکت نہ کر سکیں۔ وائس آف امریکہ ان وڈیوز کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کرسکا ہے جن میں دکھایا گیا ہے کہ طالبات ایک اینٹ کے ساتھ تالا توڑنے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں۔
کابل، مغربی ہرات اور وسطی بامیان ان شہروں میں شامل ہیں جہاں گزشتہ جمعے کے بعد سے مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین میں زیادہ تر ہزارہ طالبات شامل ہیں۔
مظاہرین نے طالبان پر اس حوالے سے بھی زور دیا ہے کہ وہ خواتین کے لیے تعلیم اور روزگار پر عائد پابندیاں نرم کریں۔ کئی مظاہرین نے پڑوسی ملک ایران میں جاری مظاہروں کی حمایت میں بھی آواز بلند کی ہے۔
طالبان سکیورٹی فورسز نے ہوائی فائرنگ کے ذریعے مظاہروں کو منتشر کر دیا ہے لیکن بعض لوگوں نے الزام عائد کیا ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین پر گولی چلائی اور ان کو مار پیٹ کا نشانہ بھی بنایا۔
طالبان نے گزشتہ سال اقتدار میں آنے کے بعد ملک کے زیادہ تر علاقوں میں لڑکیوں کے ساتویں سے بارہویں جماعت تک کے اسکول بند کر دیے ہیں۔ طالبان نے طالبات کے لیے مارچ میں اسکول کھولنے کے وعدے کی بھی پاسداری نہیں کی ہے۔
تاہم طالبان نے طالبات کے لیے ملک بھر میں سرکاری ا ور غیر سرکاری یونیورسٹیاں کھول دی ہیں لیکن یونیورسٹیوں پر سختی سے اس بات کی پابندی لازم کی گئی ہے کہ مرد اور خواتین کے کلاس روم الگ الگ ہوں۔
جمعے کے روز تعلیمی مرکز پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی ہے۔