طالبان کے ایک سینیئر اہلکار نے منگل کو افغانستان میں صرف مردوں پر مشتمل اپنی حکومت سے اپیل کی ہےکہ وہ لڑکیوں کے لیے تمام سیکنڈری اسکولوں کو مزید تاخیر کے بغیر دوبارہ کھول دے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام میں خواتین کی تعلیم پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
طالبان کے نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی کی یہ اپیل کابل میں طالبان کے ایک اعلیٰ اجتماع کے دوران سامنے آئی۔
شیر محمد عباس ستانکزئی نے اس جانب توجہ دلائی کہ اگر اسکول نہ کھولے گئے تو ان بچیوں کے لیے تعلیم کے حصول کا کوئی اور راستہ نہیں ہے، کیونکہ بیشتر کا تعلق ایسے خاندانوں سے ہے جہاں کوئی بھی تعلیم یافتہ نہیں ہے۔
"وہ کہاں اور کس جگہ پڑھ سکتی ہیں؟ ان کا شوہر ان پڑھ ہے، ان کا بھائی ان پڑھ ہے، اوران کا باپ ناخواندہ ہے، وہ کہاں پڑھ سکتی ہے؟ وہ صرف اسکولوں میں پڑھ سکتی ہیں۔"
ایک سال سے زیادہ عرصہ پہلے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے، طالبان نے چھٹی جماعت سے اوپر تمام کلاسز کی لڑکیوں کو اسکول واپس آنے سے روک دیا تھا، اور اس اقدام کے لیے مذہبی اصولوں کو جواز کے طور پرپیش کیاتھا۔
ستانکزئی نے کہا"
’’تعلیم بغیر کسی امتیاز کے مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے۔ یہاں موجود عالم دین میں سے کوئی بھی اس فرض سے انکار نہیں کر سکتا۔ ‘‘
انہوں نے کہا کوئی بھی شریعت کی بنیاد پر خواتین کے تعلیم کے حق کی مخالفت کا جواز پیش نہیں کر سکتا۔
طالبان نےگزشتہ ماہ اگست میں ہمت اخوندزادہ کو قائم مقام وزیرِ تعلیم مقرر کیا تھا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کی جانب سے یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی طرف سے طالبان پر ملک میں لڑکیوں کے لیے چھٹی جماعت کے اوپر کےاسکول دوبارہ کھولنے پر زور دینے کے چند دن بعد سامنے آیاتھا۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیوں کو مڈل اسکول اور ہائی اسکول جانے سے روک دیا گیا ہے۔
نئے وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ وہ شرعی قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے پُرعزم ہیں۔
شیر محمد عباس ستانکزئی نے کہا’’مجھے امید ہےکہ چونکہ وزارت تعلیم میں تبدیلیاں ہوئی ہیں اور نئے وزیر کا تقرر کیا گیا ہے، میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ جلد از جلد اسکول کھولنے کا سنجیدہ فیصلہ کریں۔‘‘
طالبان کے کچھ دیگر عہدیداروں نے بھی نجی طور پر لڑکیوں کے لیے اسکول دوبارہ کھولنے کی وکالت کی ہے، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی گروپ کے سپریم لیڈر، ہبت اللہ اخندزادہ، اور ان کے چند ساتھیوں کو چیلنج کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا، جو بظاہر لڑکیوں کے اسکولوں اور خواتین پر پابندیوں کے حق ہیں۔
طالبان نے کہا ہے کہ وہ لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول کھولنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں لیکن انہوں نے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا۔
اقوام متحدہ نے پابندی کو "شرمناک" قرار دیا ہے اور بین الاقوامی برادری ، اس سخت نظام کی واپسی کے خوف سے جو طالبان نے 1990 کی دہائی میں اقتدار میں آنے کے بعد نافذ کیا تھا، طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے گریزاں رہی ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ستانکزئی، ان سخت گیرعہدہ داروں کو متاثر کر سکتے ہیں جو طالبان انتظامیہ کی باگ ڈور سنبھالتے دکھائی دیتے ہیں۔
ستانکزئی ماضی میں ان مذاکرات میں طالبان ٹیم کے سربراہ تھے جن کی وجہ سے طالبان اور امریکہ کے درمیان 2020 میں قطر میں معاہدہ ہوا جس میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا بھی شامل تھا۔
خواتین پرپردےکی پابندیاں، بغیر کسی مرد رشتہ دار کی ہمراہی کے طویل سفر پر پابندی اور شہری آزادیوں پر دیگر پابندیاں ان بڑے خدشات میں شامل ہیں جو غیر ملکی حکومتوں کو طالبان کو افغانستان کے جائز حکمران تسلیم کرنے کی راہ میں حائل ہیں۔
افغانستان پر طالبان کے قبضے کا نتیجہ امریکہ اور دیگرمغربی ممالک کی جانب سے مالی امداد بند کرنے کی صورت میں ِسامنے آیا، جس سے پہلے سے ہی موجود انسانی بحران اوربدحال قومی معیشت تباہی کے دہانے پر آگئی اورلاکھوں افغانوں کو شدید بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔
کابل میں طالبان کے ملک پر قبضے کے ایک سال بعد، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسے اس بات پر تشویش بڑھ رہی ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیوں کے ساتھ ساتھ بنیادی آزادیوں کو کم کرنے والے دیگر اقدامات سے افغانستان کا معاشی بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ اور اسے زیادہ عدم تحفظ، غربت اور تنہائی کا سامنا ہو گا۔
اس رپورٹ کے لئے کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ سے لیا گیا ہے۔