رسائی کے لنکس

ترکی پناہ گزینوں کو جبری طور پر واپس شام بھیج رہا ہے, ہیومن رائٹس واچ


ترکیہ پہنچنے والے شامی پناہ گزینوں کو جبری طور پر واپس شام دھکیلا جا رہا ہے،رپورٹ ہیومن رائٹس واچ
ترکیہ پہنچنے والے شامی پناہ گزینوں کو جبری طور پر واپس شام دھکیلا جا رہا ہے،رپورٹ ہیومن رائٹس واچ

دنیا میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد ترکی میں آباد ہے، جن میں زیادہ تر شام سے تعلق رکھنے والے یعنی تین اعشاریہ چھ ملین پناہ گزین ہیں جو اپنے ملک میں دہائیوں سے جاری جنگ سے فرار ہو کر ترکی آگئے ہیں ۔لیکن اب ترکی ،انہیں جبراً واپس انکے ملک شام بھیج رہا ہے۔

انسانی حقوق کے ایک سرکردہ گروپ نے پیر کو کہا کہ چھ ماہ کی مدت کے دوران سینکڑوں شامی مردوں اور لڑکوں کو حراست میں لیا گیا ہے، انہیں مارا پیٹا گیا اور زبردستی واپس وطن بھیج دیا گیا۔

نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے ایک رپورٹ میں کہا کہ ترکی میں عارضی تحفظ کے تحت مقیم تارکین وطن کے ساتھ ایسا برتاؤ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔

ترک حکومت ماضی میں پناہ گزینوں کو زبردستی شام واپس بھیجنے کے الزامات کو مسترد کر تی رہی ہے۔

ترکی میں مقیم غیر قانونی افغان تارکین کی مشکلات
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:05 0:00

ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ شام کے پناہ گزینوں نے تحقیقات کرنے والوں کو بتایا کہ ترک حکام نے انہیں ان کے گھروں، کام کے مقامات اور سڑکوں پر گرفتار کیا ، انہیں مارا پیٹا گیا ، اور انہیں شام واپس جانےکیلئے رضامندی کے دستاویزات پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔

شام کے پناہ گزینوں نے بتایا کہ انہیں ہتھکڑیاں لگا کر شام کی سرحد تک لے جایا گیا جو بعض اوقات 21 گھنٹے کا سفر ہوتا تھا جس کے بعد انہیں بندوق کی نوک پر زبردستی سرحد پار کروائی گئی۔

ہیومن رائٹس واچ میں پناہ گزینوں اور مہاجرین کے حقوق پر تحقیق کرنے والی نادیہ ہارڈمین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ترک حکام نے سینکڑوں بے سہارا پناہ گزینو ں کو واپس شمالی شام جانے پر مجبور کر دیا ہے، جن میں بچے بھی شامل تھے ۔ حالانکہ انقرہ اس بین الاقوامی معاہدے کا پابند ہےجوپناہ گزینوں کو ایسی جگہ واپس بھیجنے سے منع کرتا ہے جہاں انہیں ایذا رسانی، اذیت یا جان جانے کا حقیقی خطرہ لاحق ہو۔

ترکی: عطیات اور مالی امداد میں کمی سے پناہ گزین پریشان
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:31 0:00

شام کے بارے میں اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن نے گزشتہ ماہ دوبارہ کہا تھا کہ واپس لوٹنے والوں والوں کے لیے شام محفوظ جگہ نہیں ہے۔

سنگین معاشی بحران کے باعث ، ترکی میں پناہ گزینوں کے لئے جذبات اور بھی منفی ہو گئے ہیں اور شام سے آنے والے پناہ گزینوں کے گھروں اور کاروباری اداروں پر حملے ہو رہے ہیں۔

اب جبکہ انتخابات قریب ہیں ،ترک حکومت لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ، شمالی شام کے، ترک فوج کے زیر کنٹرول علاقوں میں واپس بھیجنا چاہتی ہے۔

س ماہ کے شروع میں ایک ترک اہلکار نے کہا تھا کہ تقریباً 527,000 شامی باشندے رضاکارانہ طور پر واپس آئے ہیں۔ مئی میں شام کے شمال مغربی علاقے ادلب میں گھر بنانے کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ یہ ترکی سے 10 لاکھ مہاجرین کی واپسی کیلئے سہولت فراہم کرے گا۔

ترکی میں موجود پاکستانی پناہ گزین
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:33 0:00

اردوان نے حال ہی میں شام کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دیتے ہوئے شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ بات چیت کا امکان ظاہر کیا ہے۔جبکہ اس سے پہلے انقرہ ،بشار الاسد کی برطرفی کا مطالبہ کرنے والے اپوزیشن گروپوں کی حمایت کرتا تھا ۔ ترکی میں رہنے والے بہت سے شامی پناہ گزینوں کو خدشہ ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں یہ گرمجوشی کے ان پر ملک واپس جانے کے لیے زیادہ دباؤ کا باعث بن سکتی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ میں پناہ گزینوں اور مہاجرین کے حقوق پر تحقیق کرنے والی نادیہ ہارڈمین کا کہنا ہےکہ اگرچہ ترکی نے تین اعشاریہ چھ ملین شامی پناہ گزینوں کو عارضی تحفظ فراہم کیا، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ترکی شمالی شام کو پناہ گزینوں کا ڈمپنگ گراؤنڈ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے فروری اور اگست کے درمیان 37 شامی مردوں اور دو لڑکوں کے علاوہ واپس شام بھیجے جانے والوں کے رشتہ داروں کےبھی انٹرویو کیے تھے۔

ان سب کا کہنا تھا کہ انہیں درجنوں یا سینکڑوں دوسرے لوگوں کے ساتھ ملک بدر کیا گیا تھا، اور انہیں رضاکارانہ وطن واپسی کے معاہدے کے فارمز پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا ۔

شمالی شام کے شہر حلب سے تعلق رکھنے والے ایک 26 سالہ نوجوان نے بتایا کہ ایک ترک اہلکار نے اس سے کہا کہ جو بھی ترکی میں دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کرے گا، اسے گولی مار دی جائے گی۔

2016 کے ایک معاہدے کے تحت، یورپی یونین نے یورپ میں مہاجرین کا دباو کم کرنے کے بدلے ترکی کو 6 ارب یورو کی امداد فراہم کی تھی ۔ نادیہ ہارڈمین نے کہا کہ ترکی جب تک جبری ملک بدری ختم نہیں کرتا ، یورپی یونین کو مہاجرین کی حراست اور سرحدی کنٹرول کے لیے اپنی فنڈنگ معطل کر دینی چاہیے۔

XS
SM
MD
LG