رسائی کے لنکس

ارشد شریف کی ہلاکت: کینیا میں پولیس کے بیانات پر سوالات کیوں اٹھائے جارہے ہیں؟


کینیا میں پولیس پر ماورائے عدالت قتل اور جبری لاپتا کرنے کے سنگین الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔
کینیا میں پولیس پر ماورائے عدالت قتل اور جبری لاپتا کرنے کے سنگین الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔

پاکستانی صحافی ارشد شریف کی کینیا میں پولیس فائرنگ سے ہلاکت کے بعد نہ صرف اس واقعے سے متعلق شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے بلکہ مقامی پولیس کی ماورائے عدالت قتل کی کارروائیاں بھی زیرِ بحث ہیں۔

پولیس نے ابتدائی طور پر مؤقف اختیار کیا تھا کہ نیروبی میں بچے کے اغوا کے بعد پولیس نے مگادی ہائے وے پر ناکہ بندی کی ہوئی تھی اور ارشد شریف کی گاڑی ناکے پر نہیں رکی جس کا تعاقب کیا گیا اور شناخت میں غلطی کی وجہ سے گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

بعد ازاں نیشنل پولیس سروس کینیا نے اس واقعے کے بارے میں جو بیان جاری کیا اس میں بچے کے اغوا کا ذکر نہیں ہے بلکہ پولیس کی ناکہ بندی کا سبب چوری شدہ گاڑی کی تلاش بتایا گیا ہے۔

پولیس کے بیان میں تضادات اور ماضی میں کینیا کی پولیس پر ماورائے عدالت قتل کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات کے باعث اس واقعے سے متعلق بھی کئی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

نیروبی میں وائس آف امریکہ کے نمائندے محمد یوسف کے مطابق کینیا یونین آف جرنلسٹ نے ارشد شریف کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

یونین کے جنرل سیکریٹری چارلس ایرک اودور کا کہنا ہے کہ جن حالات میں ارشد شریف کا قتل ہوا ہے اس سے کئی شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ پولیس کی فراہم کی گئی تفصیلات سے ہٹ کر اس کی شفاف تحقیقات ہمارے سامنے آئیں گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر پولیس کو کوئی شبہ تھا تو اسے گرفتاری کے لیے راستہ تلاش کرنا چاہیے تھا۔

کینیا میں قائم فارن پریس ایسوسی ایشن آف افریقہ نے بھی ارشد شریف کے قتل پر تشویش کا اظہار اور حکومت سے واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

اس سے قبل کینیا کی انڈیپنڈنٹ پولیسنگ اوورسائٹ اتھارٹی (آئی پی او اے) نے کہا تھا کہ ارشد شریف کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔

کینیا میں یہ اتھارٹی ایک قانون سازی کے بعد 2012 میں قائم کی گئی تھی۔ یہ اتھارٹی پولیس پر سویلینز کی نگرانی کے لیے بنائی گئی ہے۔ آئی پی او اے پولیس افسران کے خلاف موصول ہونے والی شکایات کی تحقیقات کی مجاز ہے۔ اس کے علاوہ کسی اہل کار کے خلاف پولیس کے اندر ہونے والی کسی تفتیش پر عدم اعتماد کی صورت میں دوبارہ تحقیقات شروع کرسکتی ہے۔

کینیا میں شہری اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور ادارے پولیس کی کارروائیوں پر سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔ سال 2020 میں کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے نافذ کیے گئے کرفیو میں بھی پولیس پر تشدد اور قتل کی مبینہ وارداتوں کے الزامات سامنے آئے تھے۔

اسپیشل سروس یونٹ کی کارروائیاں

ماورائے عدالت قتل کے ایک حالیہ مقدمے میں کینیا کی پولیس کے چار اہل کاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوا ہے۔

ان اہل کاروں پر دو بھارتی شہری اور ان کے کینین ڈرائیور کو قتل کرنے کا الزام ہے۔ ذوالفقار احمد خان اور محمد زید سمیع قدوائی اگست میں کینیا کے صدر منتخب ہونے والے صدر ولیم روٹو کی انتخابی مہم کے لیے کام کرنے کے لیے یہاں آئے تھے۔

جولائی میں ان افراد کی باقیات جنگل سے برآمد ہوئی تھیں جس کے بعد چار اہل کاروں کو حراست میں لیا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ کی انگریزی سروس کے مطابق مذکورہ چاروں اہلکاروں کا تعلق اسپیشل سروسز یونٹ سے تھا۔ اس یونٹ کو ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگی کے الزامات کے باعث رواں ماہ ارشد شریف کی پولیس فائرنگ میں ہلاکت سے ایک ہفتے قبل ہی ختم کیا گیا ہے۔

پولیس کے خلاف شکایات کی تحقیقات کرنے والی اتھارٹی آئی پی او اے کے مطابق صرف رواں برس اس یونٹ پر 100 افراد کو لاپتا کرنے کے الزامات سامنے آئے تھے۔

پیر کو پریس کانفرس کرتے ہوئے آئی پی او اے کی چیئر پرسن این مکوری کا کہنا تھا کہ پولیس کے اس یونٹ پر زیرِ حراست افراد پر تشدد کرنے اور ان کی لاشیں دریا برد کرنے کے الزامات ہیں۔

این مکوری کے مطابق رواں برس جنوری میں آئی پی او اے نے مختلف تاریخ میں دریائے یالا سے ملنے والی لاشوں سے متعلق تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔ لاشوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ان افراد میں سے 12 پر تشدد کی تصدیق ہوئی تھی۔

ان افسران پر قتل سمیت اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا اور جرم ثابت ہونے پر انہیں عمر قید کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔

تاہم آئی پی او اے کی 2020 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پولیس کے اختیارات سے تجاوز اور ماورائے عدالت قتل کے مقدمات میں زیادہ تر سزائیں نہیں ہوتی ہیں۔

ماورائے عدالت قتل کے واقعات

کینیا میں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگی کی نگرانی کرنے والی تنظیم 'مسنگ وائسز آف کینیا' کے مطابق 2007 سے اب تک پولیس کی جانب سے ماورائے عدالت قتل کے 1286 کیسز سامنے آئے ہیں اور صرف رواں برس 100 واقعات پیش آچکے ہیں۔

پولیس کی جانب سے 241 افراد کو جبری طور پر لاپتا کرنے کی شکایت سامنے آئی ہیں۔

برطانوی اخبار گارڈیئن کے مطابق کیینا میں پولیس کی جانب سے تشدد کے واقعات پر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر تشویش پائی جاتی ہے۔

پولیس کے خلاف شکایت پر تحقیقات کے لیے بنائی گئی اتھارٹی آئی پی او اے نے ارشد شریف کے قتل سمیت کئی واقعات کے خلاف تحقیقات کا آغاز کررکھا ہے تاہم اتھارٹی کے شروع کیے گئے متعدد کیسز میں گزشتہ کئی برسوں سے تحقیقات میں پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔

XS
SM
MD
LG