رشی سونک پہلے ایشیائی نژاد اور غیر سفید فام ہیں جو برطانوی وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔دنیا میں اسے ایک تاریخی موقع قرار دیا جارہا ہے جب کہ پاکستان کے شہر گوجرانوالہ کے لوگ اس خبر پر اس لیے خوشی کا اظہار کررہیں کہ رشی سونک کے دادا کا تعلق انہی کے شہر سے ہے۔
رشی سونک کا تعلق پنجاب کی کھتری برادری سے ہے۔ اس ذات سے تعلق رکھنے والے لوگ پنجاب کے اضلاع گوجرانوالہ، شیخوپورہ ، نارووال ، سیالکوٹ میں رہائش پذیر تھے جو کہ تقسیمِ ہند کے وقت بھارت چلے گئے تھے۔
رشی سونک کے دادا رام داس سونک برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے 12 سال قبل ہی 1935 میں کینیا کے علاقے نیروبی چلے گئے تھے جہاں انہوں نے ملازمت اختیار کر لی تھی۔ ان کی اہلیہ سہاگ رانی سونک گوجرانوالہ سے 1937 میں اپنی ساس کے ساتھ دہلی منتقل ہوئی تھی جہاں سے وہ اپنے خاوند کے پاس کینیا چلی گئیں۔
یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ رشی سونک کے دادا کو گوجرانوالہ چھوڑے 87 سال اور دادی کو 85 سال گزر چکے ہیں۔ گوجرانوالہ میں بسنے والے کھتری برادری کے باقی سینکڑوں افراد تقسیم ہند کے وقت 1947 میں گوجرانوالہ سے بھارت منتقل ہوئے تھے۔
رام داس اور سہاگ رانی کے چھ بچے تھے جن میں تین بیٹیاں اور تین بیٹے شامل تھے۔ رشی سونک کے والد یشوہر سونک 1949 میں نیروبی میں پیدا ہوئے جب کہ یہ خاندان 1960 میں انگلینڈ منتقل ہوا تھا۔
تقسیم ہند کے وقت کھتری ہندو خاندان کے لوگوں کی اکثریت بھارت میں دہلی منتقل ہو گئی تھی جہاں انہوں نے گوجرانوالہ کے نام سے ہی ایک علاقہ بسا لیا تھا جو اب دہلی کا مشہور علاقہ ہے جسے ’گوجرانوالہ دہلی‘ کہا جاتا ہے۔
گوجرانوالہ بدل گیا
رشی سونک کے دادا رام داس سونک گوجرانوالہ کے اندرون شہر میں رہتے تھے ۔ اس زمانے میں شہر کی آبادی زیادہ نہیں تھی اور لگ بھگ 85 سے 90 ہزار نفوس پر مشتمل تھی ۔ اس دور میں گوجرانوالہ شہر 11 دروازوں کے اندر تھا اور رات کے وقت عموماً یہ دروازے بند کردیے جاتے تھے۔
گوجرانوالہ کے مشہور دروازوں میں سیالکوٹی دروازہ ، لاہوری دروازہ ، گرجاکھی دروازہ ، ایمن آبادی دروازہ ، کھیالی دروازہ ، شیرانوالہ دروازہ ، ایڈوائر گیٹ ، ٹھاکر سنگھ گیٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اب ان میں سے کوئی بھی دروازہ اپنی اصل حالت میں سلامت نہیں ہے۔
قیامِ پاکستان کے وقت گوجرانوالہ میں اکثریتی آبادی ہندوؤں کی تھی جوکہ یہاں کی صنعت و حرفت پر چھائے ہوئے تھے ۔ کھتری برادری اس وقت شہر میں کاروبار کے لحاظ سے بڑے خاندانوں میں شمار ہوتی تھی۔
تقسیم ہند سے پہلے اور آج کے گوجرانوالہ میں زمین آسمان کا فرق آگیا ہے۔ اب نہ وہ پرانے مکان رہے ہیں نہ ہی تنگ و تاریک گلیاں ۔ اندرونِ شہر کے بازاروں میں پرانے مکانات گرا کر وہاں مارکیٹیں بنا دی گئی ہیں۔
ہندوؤں کا کھتری خاندان سیالکوٹی دروازے کے اندر تھانے والا بازار، بھابھڑیانوالہ بازار اور اس کے گردونواح کے علاقوں میں رہائش پذیر تھا۔ اسی بنا پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ رشی سونک کے خاندان کے افراد سیالکوٹی دروازے اور بھابھڑیانوالہ بازار کے اندرونی محلے میں رہائش پذیر تھے۔ یہ علاقہ اب کمرشل ہوچکا ہے جہاں مکانات کو گرا کر مارکیٹیں اور دکانیں بن چکی ہیں۔
کھتری برادری کے محلے
گوجرانوالہ شہر میں ہندوؤں کے درجنوں مندر تھے جن میں سے اب کوئی بھی اپنی اصل حالت میں موجود نہیں۔ اور کسی بھی مندر میں پوجا نہیں کی جاتی۔ زیادہ تر مندروں میں ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں نے رہائش گاہیں اختیار کر لیں اور کچھ پر مقامی لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ باقی سرکاری ادارے متروکہ ہندو املاک بورڈ کی تحویل میں ہیں۔
حاجی ٹیپو سلطان جن کے آباؤاجداد اندرون شہر سیالکوٹی دروازے اور تھانے والا بازار کے رہائشی تھے اور اب یہ وہاں سے شہر کے پوش علاقے میں منتقل ہوچکے ہیں۔
حاجی ٹیپو سلطان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے والدین سے یہی سنا تھا کہ یہاں رہنے والے کھتری خاندان کے لوگ بھابھڑیانوالہ مندر ، جین مندر اور تالاب دیوی والے مندر میں پوجا کیا کرتے تھے۔
حاجی ٹیپو سلطان نے بتایا کہ اگرچہ برطانوی وزیراعظم کے دادا کا نام اب شاید گوجرانوالہ کے کسی شخص کو یاد نہ ہو کیوں کہ اس عمر کے لوگ دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں تاہم یہاں بسنے والی کھتری براردی کا نام کئی لوگوں نے اپنے بزرگوں سے سن رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسے گوجرانوالہ کے لیے اعزاز قرار دیا جاسکتا ہے کہ برطانوی وزیراعظم کے آباؤاجداد کا تعلق ہمارے شہر سے ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو وہ خود کسی انٹرویو میں اس بات کا اظہار بھی کردیں تو ہماری خوشی بڑھ جائے گی۔
’بیٹے کی طرح استقبال کریں گے‘
خواجہ رضوان گوجرانوالہ کی تاریخ اور ثقافت پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ایک این جی او یارمددگار بھی چلاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے خواجہ رضوان نے کہا کہ رشی سونک کے دادا اور دادی گوجرانوالہ سے تھے جوکہ یہاں سے کینیا اور پھر وہاں سے انگلینڈ منتقل ہوگئے ۔" حیرت ہے کہ بھارت والے کیوں دعویٰ کررہے ہیں کہ رشی سونک بھارتی نژاد ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ رشی سونک کے آباؤاجداد برطانیہ کے زیر تسلط ہندوستان سے تھے ۔ تقسیمِ ہند کے وقت تو وہ کینیا میں رہتے تھے اور موجودہ بھارت میں کبھی نہیں رہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر رشی سونک اپنے آبائی شہر گوجرانوالہ آئیں گے تو ہم ان کا شایان شان استقبال کریں گے جیسا کسی قابل فخر بیٹے یا ہیرو کا کیا جاتا ہے۔